قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں مگر تیرے تخیل سے فزوں تر ہے وہ نظارہ گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے کہ منعم کو گداگر ڈر سے بخشش کانہ تھا یارا ان اشعارکوایک بار پھرپڑھیں اورقرآن کریم کی آیت ’’وعبادالرحمن الذین یمشون علی الارض ہوناواذاخاطبہم الجاہلون قالواسلاما‘‘اور’’الذین ان مکنہم فی الارض اقامواالصلوۃواٰتواالزکوٰۃ ‘‘اوران جیسی آیاتِ قرآنیہ کے مضامین کا ذرا دور ہی سے صحیح ایک ادبی شہ پارے کی شکل میں مفہوم ومطلب ادا کرنے کی سعی محمودکی گئی ہے ۔ اور ’’محمدرسول اللہ والذین معہ اشداء علی الکفاررحماء بینہم‘‘کو تو علامہ اقبال نے یہ کہہ کر بیان ہی کردیا ہے ؎ ہو حلقۂ یاراں تو بریشم کی طرح نر م رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن اردوکے شعراء نے ادب وسلیقہ مندی کے ساتھ قرآن وحدیث کے مفاہیم کو بڑی خوش اسلوبی والی زبان عطا کی ہے ’’لقد خلقناالانسان فی کبد‘‘ کو کلیم عاجز پٹنوی نے تو یوں کہا ہے ؎ غم تو متاعِ زیست ہے اس سے گریز کیا جس سے ملے جہاں سے ملے ،جس قد رملے آپ دور نہ جائیں ہندوستان کی ایک مایۂ نازدرس گاہ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم اکل کوا کے استاذ حدیث اور گجرات کی مشہور درس گا ہ فلاح دارین ترکیسرکے بے بدل فاضل حضرت مولاناعبدالرحیم صاحب فلاحیؔ مدظلہٗ انھیں ادبی ودینی، اسلا می و ایما نی حلقوں کے ایک مایۂ نازاورممتازفردہیں جنھوں نے قرآن وحدیث کادرس دینے میں اپنی زندگی کابیش قیمت حصہ گذارنے کے ساتھ فصاحت وبلا غت وادب کی پر پیچ مگر