قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
زبان ہے، جس میں اسلامی اثاثے کا،کہنا چاہئے، تمام تر ذخیرہ تقریباًآہی گیا ہے،پھر اس ادب وچاشنی کے ساتھ اور فصاحت و بلاغت کی سحر آفرینی اور سلاست روی کے سا تھ کہ ع سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے کہناچاہئے کہ ہندوستان،پاکستان،بنگلہ دیش میں تواردوزبان وادب کو بڑی بڑی کانفر نسو ں اور بڑے بڑے عوامی جلسوں میں جگہ ملتی ہی ہے ،دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اردو زبان وادب ہی کو میڈیم بناکر صحیح اسلام کی روح اور درست دینی فکر کی نشر و اشاعت کی جاتی ہے ،یہ اور بات ہے کہ ترجمہ کی مدد سے اس علاقے کے حلقۂ افادہ اور استفادہ کو مزید کمک پہونچائی جاتی ہے ۔ معلوم ہواکہ قرآن کریم کی ادبی وفنی زبان کابہت زیادہ اثرفصاحت و بلاغت کے پہلو سے اردو زبان وادب میں منتقل ہواہے ،اور عربی مضامین کو جس تاثیر وسحر انگیزی بل کہ شعلہ بیانی سے اردو زبان میں بیان کیا گیا ہے ،شاید نہیں یقینا دوسری زبانوں کو اس کاحصہ اگر ملا ہے، توکم یابہت کم ملا،یاکہہ سکتے ہیں کہ بہت زیادہ نہیں ملا ۔علامہ اقبال مرحوم کوبھی دیکھئے حالات حاضرہ کوصحابۂ کرام کے حالات سے جوڑکر کس فصاحت مآب زبان میں ادا کرتے ہیں ،کہتے ہیں ؎ کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیاتم نے وہ کیا گردوں تھا توجس کا ہے اک ٹوٹاہوا تارا تمدن آفریں آئین خلاق جہاں داری وہ صحرائے عرب یعنی شتر بانوں کا گہوارا غرض میں کیا کہوں تجھ سے کہ وہ صحرا نشیں کیا تھے جہاں گیر و جہاں دار و جہاں بان و جہاں آرا