احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
کے وقت میں ایمان لانا فرض ہوتاہے۔ مثلاً چربی اور بعض طیبات جو یہود پر حرام تھیں۔ ان کو جائز سمجھنا ان کے لئے کفر، جب حلال ہو گئیں، اب ان کو حرام سمجھنا کفر ہے۔ سوال… جب انبیاء علیہم کی آمدجاری رہی تو اب سنت اﷲ میں کیوں تبدیلی ہوئی۔ حالانکہ قرآن مجید میں ہے’’ولن تجد لسنۃ اﷲ تبدیلا(احزاب:۶۲)‘‘ {اﷲ کی سنت بدلتی نہ دیکھے گا۔} جواب… اس آیت سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انبیاء کی آمد باقی ہے یا ان کی اب آمد سنت اﷲ میں داخل ہے۔ سنت اﷲ کی تعین یا تونص سے ہو سکتی ہے۔ یا استقراء تام سے قرآن و سنت میں تو کہیں اب نبوت کے تسلسل کا پتہ نہیں چلتا۔ بلکہ اس کے خلاف دلائل موجود ہیں۔ جن سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم میں سنت اﷲ یہ ہے کہ جب دنیا سن رشد کو پہنچ جائے اور آپس میں ان کے تعلقات وابستہ ہو جائیں۔ قریب ہے کہ وہ ایک خاندان کی طرح سمجھے جاویں۔ پس اس وقت لازمی طور پر ایک ہی رسول کے ذریعہ ایک ہی قانون شریعت بھیج کر قومی تفرقہ کو مٹا دیا جائے اور جب تک دنیا سن رشد کو نہیںپہنچتی اور آپس میں تعلقات وابستہ نہیں بندھے۔ بلکہ مختلف گروہوں اورآبادیوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس وقت سنت اﷲ یہ ہے کہ نبوت و رسالت کاتسلسل باقی رہے۔ جیسے نقل سے تسلسل ثابت ہیں۔ اسی طرح عقلی دلیل بھی نبوت کے بارے میں تسلسل ثابت نہیں۔ لہٰذا تسلسل نبوت کو سنت اﷲ کہنا نقل اور عقل کے خلاف ہے۔ سوال… ابراہیم علیہ السلام کو اﷲ نے امام بنایا تو آپ نے فرمایا میری ذریت سے بھی امام بنیں۔ اﷲ نے فرمایا میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچ سکتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں نبوت جاری ہے۔ ورنہ سب کے سب ظالم ٹھہریں گے۔ جواب… یہاں امامت کاذکر ہے نہ نبوت کا اور امامت نسل ابراہیم میں جاری ہے۔ اگر نبوت مراد ہو تو مطلب یہ ہوا کہ جو نبی نہ ہو وہ ظالم ہے۔ امامت کے متعلق تو قرآن مجید نے دعا ذکر کی ہے۔ فرمایا بندے رحمن کے یہ دعا کرتے ہیں’’واجعلنا للمتقین اماما (فرقان:۷۴)‘‘ {ہم کو متقیوں کے لئے امام بنانا۔} سوال… ’’وجعلنا فی ذریتہ النبوۃ والکتاب (عنکبوت:۲۷)‘‘ {ہم نے ابراہیم کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔}سے معلوم ہوتا ہے کہ نبوت جاری ہے۔ جواب… (۱)اگر اس آیت سے معلوم ہوتا کہ نبوت جاری ہے۔ تو یہ بھی معلوم ہوتا ہوگا کہ کتابوںکی آمدبھی جاری ہے۔