احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
۸… ’’خدا تعالیٰ نے بعض الہامات میں یہ ہم پر ظاہر کیا تھا کہ یہ لڑکا جو فوت ہو گیا ہے۔ استعدادوںمیں اعلیٰ درجہ کا ہے اور دنیوی جذبات بکلی اس کی فطرت سے مسلوب اور دین کی چمک اس میں بھری ہوئی ہے اور روشن فطرت اور عالی گوہر اور صدیقی روح اپنے اندر رکھتا ہے۔سو جو کچھ خدا تعالیٰ نے اپنے الہامات کے ذریعہ سے اس کی صفات ظاہر کی یہ سب اس کی صفائی استعداد کے متعلق ہے۔ جن کے متعلق ظہور فی الخارج کوئی ضروری نہیں۔‘‘ (سبز اشتہار، مجموعہ اشتہار ج۱ص۱۶۹) بشیر احمد کے انتقال پر لوگوں نے جو اثرلیا وہ بھی دیکھ لینا چاہئے۔ الف… خود مرزا قادیانی مولوی نور الدین کو لکھتے ہیں:’’اس واقعہ سے جس قدر مخالفین کی زبانیں دراز ہوں گی اور موافقین کے دلوں میں شبہات پیدا ہوں گے۔ اس کا اندازہ نہیں ہو سکتا۔‘‘ (مکتوبات احمدیہ ج۵نمبر۲، مکتوبات احمد ج۲ص۷۱،طبع جدید مکتوب نمبر۴۷) ب… ’’حکیم نور الدین صاحب نے مرزا قادیانی کو لکھا کہ اگر اس وقت میرا اپنا بیٹا مر جاتا تو میں کچھ پروا نہ کرتا۔ مگر بشیر اول فوت نہ ہوتا اور لوگ اس ابتلاء سے بچ جاتے۔‘‘ ج… ’’میاں محمد خان نے (مرزا قادیانی) کو لکھا تھا کہ اگر میرا ایک ہزار بیٹا ہوتا اور وہ میرے سامنے قتل کر دیا جاتا تو مجھے اس کا افسوس نہ ہوتا۔ ہاں بشیر کی وفات سے لوگوں کو ابتلاء نہ آتا۔ ‘‘ (ارشاد میاں محمود احمد خلیفہ قادیان مندرجہ الفضل ج۸نمبر۱۵) د… ’’جب شروع ۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود کو اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک عظیم الشان بیٹے کی بشارت دی…لوگ نہایت شوق کے ساتھ اس پسر موعود کی راہ دیکھنے لگے… ان دنوں حضور کے ہاں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ مگر اﷲ نے بھی ایمان کے رستہ میں ابتلاء رکھے ہیں۔سو قدرت خدا کہ چند ماہ کے بعد یعنی مئی ۱۸۸۸ء میں بچہ پیدا ہوا تو وہ لڑکی تھی۔ اس پر خوش اعتقادوں میں مایوسی اور بداعتقادوں اور دشمنوں میں ہنسی اور استہزاء کی ایک ایسی لہر اٹھی کہ جس نے ملک میں ایک زلزلہ پیداکردیا۔ کچھ عرصہ بعد یعنی اگست ۱۸۸۷ء میں حضرت کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس کا نام بشیر احمد رکھا گیا۔ مگر قدرت خدا کہ ایک سال کے بعد یہ لڑکا فوت ہو گیا۔ بس پھر کیا تھا ملک میں