احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
M مجھے ہر دو فریق سے کوئی پیری مریدی کا تعلق نہیں۔ ۱… مگر اس وقت میرے سامنے دو شخصیتوں کی تحریرات کا سلسلہ موجود پڑا ہے۔ ان میں سے ایک تومرزاقادیانی اور دوسرے صاحب جناب فضیلت مآب سید پیر مہر علی شاہ صاحبؒ گولڑہ شریف والے ہیں۔ جب ہم اوّل الذکر کے ہر قسم کی مذہبی تحریرات کے سلسلہ میں حکم کے طور پر بہ نظر غور دیکھتے ہیں تو سوائے لایعنی اوہام اور بیہودہ خرافات اور مزخرافات او رگالی گلوچ کے اور کچھ نہیںپاتے۔ مرزا قادیانی نے محض ایک دکان داری کی پٹری جمائی ہوئی ہے ورنہ فی نفسہ ان کی سب نوشت و خواند کے سلسلہ کو مطلقاً ایک ذرہ بھر بھی معاملات دین سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ کیا یہ بھی شعار اسلام میں داخل ہے کہ مرزا نے جھوٹے اشتہارات دے دے کر ہزاروں روپیہ براہین کی پیشگی قیمت پچیس پچیس روپیہ فی نسخہ غریب مسلمانوں سے وصول کی اور کھا گئے اور جس قدر حجم کتاب کا وعدہ کیا تھا۔ اس کا عشر عشیر بھی ایفا نہ کیا اور چند جزو کتاب برائے نام اپنی ہی تعریف و توصیف میں چھاپ کر خاموش ہو بیٹھے۔ ہر چندمرزا کے چند احباب خصوصاً نور الدین نے عام وخاص کا یہ خیال سمجھ کر کہ یہ صریحاً دھوکہ اور عین شرع کے برخلاف ہے آپ کومشورہ دیا کہ باقی قیمت اس حصہ کتاب کی جو ابھی طبع نہیں ہوئی اور جس کا وجود عدم سے ظہور میں نہیں آیا، واپس کرنی چاہئے اور نور الدین نے یہ بھی کہا کہ اگر آپ کے پاس روپیہ نہیںہے تو مجھ کو ارشاد ہو کہ میں اپنے پاس سے وہ روپیہ جو واجب الادا ہے، واپس کر دوں۱؎ (فتح الاسلام ص۶۰تا۶۲، خزائن ج۳ ص۳۶) ۱؎ نور الدین کا لوگوں کی قیمت پیشگی وصول شدہ کو واپس کرنے کے لئے مرزا سے اجازت طلب کرنے سے پایا جاتا ہے کہ اس کا منشاء بھی کچھ ادائیگی قیمت کا نہ تھا۔ بلکہ ایک طرف سے پبلک کو اپنی فراغ حوصلگی اور زبانی ہمدردی جتانی مقصود تھی۔ورنہ درکار خیر حاجت ہیچ استخارہ نیست اگر ایسا ہی نور الدین کو مرزا کے ساتھ محض بوجہ ﷲ عقبیٰ کی خاطرہمدردی تھی، تو کیوں اور کیا باعث کہ نور الدین نے وہ روپیہ جو مرزا کے ذمہ واجب الادا تھا، ان لوگوں کو جن کا حق تھا، واپس کر کے مرزا سے حق العباد کے غصب کرنے کا الزام دور نہیں کیا۔