احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
سے مدد لے کر یہ نتیجہ نکالنا کہ چونکہ ’’ارسل رسولہ بالھدی‘‘ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ہے اور مرزا قادیانی چونکہ مثیل مسیح ہیں اور عیسیٰ تو اس دنیا میں مر گئے اور اب وہ آنے والے نہیں ہیں۔ لہٰذا اس آیت کے مصداق مرزا قادیانی ہی ہیں،محض خیالی پلاؤ پکانا ہے۔ میں اوپر تفصیل سے بحث عرض کر چکا ہوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ضرور ہوں گے اور بیشک اس وقت دین محمدیؐ سب دینوں پر غالب آئے گا لیکن یہ خیال کرنا کہ مرزا قادیانی اس کے مصداق ہیں ،محض غلط ہے۔ اگر فرض کیا جائے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس آیت کے مصداق ہیں تو اس سے مرزا قادیانی کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ مرزا قادیانی تو اپنے آپ کو ظلی نبی کہتے ہیں اور مثیل مسیح کہتے ہیں۔ مثل کبھی اصل نہیں ہو سکتا۔ اگر آیت مذکورہ بالا حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ہے تو مرزا قادیانی کے مرید مرزا قادیانی کو کچھ فائدہ نہیں پہنچاسکتے اور نہ ان کو مسیح بنا سکتے ہیں۔ لیکن یہ عجیب اور بالکل نرالہ ڈھنگ مرزا قادیانی نے اختیار کیا ہے کہ ظلی نبی کے خطاب سے اپنے آپ کو منسوب کرکے ان آیات اور حدیثوں سے اپنے حق میں فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق ہیں۔ انصاف سے ملاحظہ فرمائیں کبھی آنحضرتﷺ کے امتی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے اور کبھی ظلی نبی ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہے اور کہیں رسول ہونے سے انکار ہے۔ اگر بقول ہمارے دوست کے آیت ’’ھوالذی ارسل رسولہ‘‘ کے بموجب مرزا قادیانی رسول ہیں تو پھر ظلی نبوت کا دعویٰ کیوں ہے؟ صاف دعویٰ نبوت اور رسالت کا کر دیا جاتا کہ آیت شریفہ میری شان میں ہے اور میں نبی اور رسول ہوں۔ صرف اعتراضات سے بچنے کے لئے کونہ کونہ چھپنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ کبھی آیت سے کبھی کسی بزرگ کے قول سے مدد لے کر نبی بننے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے۔ صاف طور پر رسول بن بیٹھتے۔ وہ کبھی یہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں نیا ہو یا پرانا ۔(عقائد احمدیہ ص۱۹)اور کبھی دبے الفاظ میں رسالت کادعویٰ ہے۔ (ص۶کتاب مذکور)جس طرح کوئی شخص بے ملک اور رعیت کے بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرے اسی طرح مرزا قادیانی بغیر کسی شریعت اور صحیفہ الٰہی کے اور حکم خدااور رسول کے دعویٰ رسالت کا فرماتے ہیں مگر دبے ہوئے الفاظ میں۔ بھلا ایسی کاٹھ کی ہانڈی کہیں چولھے پر چڑھ سکتی ہے؟