احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ہے۔ حضرات قادیانیوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا دوبارہ نازل ہونا اس وجہ سے ناممکن معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسی دنیا میںمر گئے۔ پہلے تو یہ کہ اس دنیا میں ان کے مرنے کا خیال ہی غلط ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر فرض کیا جائے کہ وہ اسی دنیا میں مر گئے تو اﷲ کے پاس کیا مشکل ہے کہ پھر دوبارہ اس کو دنیا میں پیداکرے۔ اگلے زمانہ میں بھی لوگ اس قسم کا خیال کرتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے کس طرح پیدا ہو گئے؟ تو خدا نے قرآن پاک میں ان لوگوں کو اس آیت کے ذریعہ سے مخاطب کر کے فرمایا’’ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون (آل عمران:۵۹)‘‘ {بیشک عیسیٰ کی مثال اﷲ کے نزدیک ایسی ہے جیسے آدم کی اﷲ نے آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا پھر اس سے فرمایا آدم ہوجا وہ آدم بن گیا۔} دیکھئے، خدا نے خود کیسی مثال دے کر بندوں کو سمجھایا ہے جس خدا کو یہ قدرت ہے کہ مٹی سے انسان ناطق بنائے۔ کیا اس کو یہ قدرت نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مرنے کے بعد پھر دنیا میں لائے۔ یہ امر مرزا قادیانی نے بالکل اپنی اختیار میں کرلیا ہے کہ قرآن شریف کی جس آیت یا جزو آیت کو اپنے مصالح کے لحاظ سے جس طرح متعلق کرنا چاہا، متعلق کردیا۔ اسی طرح حدیثوں کے جزو کو جس طرح چاہا،استعمال کیا۔ سورہ مریم میں جو الفاظ ’’یوم اموت ویوم ابعث حیا (مریم:۳۳)‘‘ خدا نے فرمائے ہیں تو غالباً یہ استدلال کیا جا سکتا ہے کہ جو لفظ زبان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نکلے تھے، وہی الفاظ قرآن میں بیان ہوئے ہیں۔ یعنی جس دن پھر زندہ ہوں گا۔ پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں مر گئے۔ یہ استدلال صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس وجہ سے کہ میں نے وہ حدیث نقل کر دی ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بعد نازل ہونے کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں زندگی بسر کریں گے اوراس کے بعد مریں گے اور اس وقت لفظ اموت صادق آئے گا اور الفاظ ’’یوم ابعث حیا‘‘ اس وقت صادق آئیں گے جب سب کے ساتھ قیامت کے دن اپنی قبر سے زندہ ہوں گے۔ اس کے مان لینے سے مرزا قادیانی کے ادعائے نبوت پر اثر پڑتا ہے۔ اگر وہ اس طرح مان لیں کہ اﷲ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اٹھا لیا تو پھر ان کا دنیا میں آنا ماننا پڑے گا۔ اسی لئے ’’رفعہ اﷲ الیہ‘‘سے دوسرا مطلب لیا گیا ہے۔ اس موقع پر بھی سیاق عبارت محواہ مکدم سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا نے اپنے پاس اٹھا لیا۔ منزلت بڑھانے کے معنی نہیں لئے جا سکتے۔