احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
بعد حمد خدا اور نعت سیدالانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاکسار علاء الدین احمد بھاگل پوری مسلمانوں کی خدمت میں عرض کرتا ہے کہ اتفاقاً میں نے اپنے قدیم دوست مولوی عبدالمجید صاحب بی۔اے، احمدی کو خط لکھا تھا۔ اس کا سبب صرف رابطہ قدیمانہ تھا۔ میں ان کی پہلی حالت سے پورا واقف ہوں کہ ہمیشہ سے وہ نیک خیال اور راست باز تھے اور صالحین اور بزرگوں کی قدر کرنے والے۔ مگر جب سے احمدی ہوئے اور قادیان ہو کر آئے، اس وقت سے میں ان میں پہلی سی حالت نہیں دیکھتا۔ چونکہ رابطہ اور دوستی کا تقاضا یہی ہے کہ اپنے دوست کی خیر خواہی سے باز نہ رہے۔ اس لئے میں نے انہیں خط لکھا اور مرزا قادیانی کی واقعی حالت کی طرف انہیں متوجہ کرنا چاہا۔ مگر افسوس ہے کہ وہ متوجہ نہ ہوئے اور میری کسی بات کا جواب نہ دیا۔ فضول باتیں بنا کر چند اوراق سیاہ کر دیئے۔ میرے اعتراضوں کے جواب میں یہ کہا کہ اعتراضات تو اسلام پر بھی ہوتے ہیں۔ پھر کیا اعتراضوں کی وجہ سے مذہب کوچھوڑدیا جائے۔ مگر سمجھدار حضرات سمجھ سکتے ہیں کہ اعتراضات ہر قسم کے ہوتے ہیں۔ سچوںنے جھوٹے مدعیوں پر اعتراضات کر کے انہیں لاجواب کیا ہے اور جھوٹوں نے سچے انبیاء پربھی اعتراضات کئے ہیں۔ پھر کیا یہ دونوں قسم کے اعتراضات یکساں ہیں؟ ہرگز نہیں۔ جس طرح تثلیث پرستی اور بت پرستی پر اہل حق نے لاجواب اعتراضات اٹھائے ہیں یا جس قسم کے اعتراضات مرزا قادیانی پر کئے گئے ہیں اور کوئی ان کا مرید جواب نہیں دے سکتا۔ کیا آپ کے خیال میں اسلام پر بھی ایسا ہی کوئی اعتراض ہوتا ہے؟ اگر آپ کا خیال ایسا ہے تو آپ کا اسلام ہرگز قابل اعتبارنہیں ہے۔ اپنے عقیدے کو صاف کیجئے۔ اسلام پر کوئی ایسا اعتراض نہیں ہو سکتا۔ جیسے اعتراضات مرزا قادیانی پر ہوتے ہیں اور اس کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ مرزا قادیانی پر تو ہم نے اعتراضات کئے ہیں۔ اس کا جواب تم یا کوئی تمہارا بھائی جو بڑے سے بڑا مولوی ہو، وہ جواب دے اور تم اسلام پر اعتراض کرو اس کا جواب ہم خود دیں گے۔ یا کسی عالم سے دریافت کر کے لکھیں گے۔ اس سے مذہب اسلام کا اور تمہارے مذہب کا فرق بخوبی ظاہر ہو جائے گا۔ میں پورے استحکام سے کہتاہوں کہ جو اعتراضات مرزا قادیانی پر کئے گئے ہیں، نہایت صاف طور سے قرآن و حدیث اور خود ان کے اقراروں سے کاذب ثابت کیاگیا ہے۔