احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
کہ آپﷺ آسمان پر چڑھ جائیں۔ بلکہ ساتھ کتاب لانے کابھی ذکر قرآن کریم نے فرمایا ہے اور اﷲ تعالیٰ نے جو ان کو جواب دیا اس سے بھی ظاہر ہے کہ مطالبہ ان کاکتاب لانے کا تھا۔ اس لئے ہی اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو کہہ دو کہ یک بارگی کتاب کو اتارنا میرا کام ہرگز نہیں۔ میں تو جو حکم اوپر سے جتنا بھی نازل ہوتا ہے۔ فقط اس کو تمہارے پاس پہنچانے والا ہوں۔ اس آیت سے ممات عیسیٰ علیہ السلام کا ثابت کرنا پرلے درجہ کی جہالت اور نادانی ہے۔ کیونکہ اس کے قبل تو رسول خداﷺ کو جسمانی معراج کرائی گئی تھی۔ جیسا کہ تفاسیر بھی شاہد ہیں، ملاحظہ ہو۔ جواب دوم ’’والحق الذی علیہ اکثر الناس ومعظم السلف وعامۃ المتاخرین من الفقھاء والمحدثین والمتکلمین انہ اسری بجسدہ‘‘(علامہ ملا علی قاریؒ مرقاہ شرح مشکوٰۃ)یعنی متفق ہیں اس بات پر معظم سلف اوربزرگ فقہاء وغیرہ اور محدثین و متکلمین یہ کہ سیر کرائی گئی رسول خداﷺ کو ساتھ جسم کے۔ یعنی آنحضرتﷺ کو اﷲ تعالیٰ کی ذات بابرکات نے سیر کرائی۔ ساتھ روح اور جسم کے مکہ معظمہ سے بیت المقدس اور وہاں سے آسمانوں کے اوپر ساتھ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے بیداری کی حالت میں۔ اسی لئے تو کفار مکہ نے انکار کیا تھا۔اگر وہ لوگ بیداری کا واقعہ خیال نہ کرتے تو کبھی بھی اس واقعہ کو بعید از عقل کہہ کر انکار نہ کرتے اور نہ حضورﷺ سے بیت المقدس کی عمارت کے متعلق امتحانی سوالات ہی کرتے۔ ان کو سوال اس لئے ہی کرنے کی ضرورت ہوئی جبکہ رسول خداﷺ نے فرمایا کہ میں اس خاکی جسم کے ساتھ بیداری کی حالت میں آج بیت المقدس اورآسمانوں کی سیر کر کے آیا ہوں۔ تو مذکورہ بالا حالات سے بخوبی ظاہر ہواکہ کفار کا مطالبہ صرف یہی نہ تھا کہ آپ آسمان پر چڑھ جائیں۔ بلکہ ’’لن نؤمن لرقیک‘‘ یعنی تیرے ساتھ آسمان پر چڑھ جانے سے بھی ہم ایمان نہ لائیں گے۔ جب تک کہ ’’حتیٰ تنزل علینا کتابانقرؤہ‘‘ یعنی ہمارے اوپر آسمان سے آتے ہوئے کتاب لے کر نہ آؤ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آپ کا یہ اعتراض قرآن کریم کے خلاف ہے کہ بشر آسمان پر نہیں جا سکتا۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پرزندہ ہیں اور رسول کریمﷺ کو بھی اﷲ تعالیٰ نے اس خاکی جسم کے ساتھ آسمانوں کی سیر کرائی۔جیساکہ حدیثوں میں ذکر ہے۔