احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
حافظہ اور عقل اور دیگر اعضاء میں خرابی ہونا لازمی امر ہے تو بتائیے کہ آپ کے نزدیک تو ارذل العمر کا اندازہ فقط ۷۵ تا ۹۵ سال واقع ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی عمر تو کئی گنا زیادہ ہوئی۔ ان کا حال کیا ہو کیا ہوگا؟ اگر رسول اﷲﷺ کی امت کے لئے حضرت علیؓ اور تفسیر بیضاوی والوں نے ذکر کیا ہے تو پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات تو تمہاری پیش کردہ آیت سے ہرگز ثابت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ آپ بہت عرصہ پہلے کے نبی ہیں۔ مولانا احمدعلی صاحب!اگر آپ کے نزدیک خدانخواستہ کسی آدمی کی عمر ۷۵ یا ۹۵ سال سے بڑھ جائے تو اس کو زندہ دفن کردینا شاید جائز ہی ہوگا۔ کیونکہ وہ مقرر شدہ قانون کی حد بندی توڑ رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حضورآقائے نامدار کی امت کے اندر یعنی صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم کی عمر طبعی اور ارذل العمر کس قدر تھی۔ چنانچہ نمونے کے طور پرکچھ نقل کر تا ہوں، ملاحظہ فرمائیے۔ ۱… ’’ھوابوالطفیل عامر ابن واثلۃ…مات سنۃ مائۃ واثنین‘‘ (حوالہ نقل اسمائے رجال مشکوٰۃ ص۶۰۱) یعنی حضرت ابوالطفیلؓ کی عمر ایک سو دو برس تھی۔ ۲… ’’لبید ابن ربیعۃ…ولہ من العمر مائۃ واربعون و قیل مائۃ وسبع و خمسون‘‘ (اسمائے رجال مشکوٰۃ ص۶۱۴)یعنی حضرت لبیدؓ بن ربیعہؓ کی عمر ۱۵۷ سال تھی۔ ۳… ’’لیث بن سعدؓ…مات فی شعبان سنۃ خمس و سبعین ومائۃ‘‘ (اسمائے رجال مشکوٰۃ ص۶۱۵) یعنی حضرت لیثؓ بن سعد تابعیؓ کی عمر شریف ۱۷۵ سال کی ہوئی۔ مولانا احمد علی صاحب! علاوہ ازیں اور بھی اکثراصحاب رسول اﷲﷺ کی کافی کافی عمریں گزری ہیں اور آپ نے جو ۷۵ تا۹۵ سال کی عمر مقرر کی ہے۔ وہ سراسرغلط ثابت ہوئی۔ آپ نے جو فرمایا ہے کہ ارذل العمر میں ہر انسان کا علم و حافظہ اور عقل وغیرہ میں خرابی پیدا ہونا لازمی ہے۔ یہ غلط ہے۔ کیونکہ ان تمام باتوں سے اﷲ تعالیٰ کے رسولﷺ اور آپؐ کے اصحاب بلاشک مستثنیٰ ہیں۔ لہٰذا مذکورہ بالا حوالہ جات سے آپ کے اعتراض کی مکمل طور پر بیخ کن تردید ہو گئی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام خدا کے فضل و کرم سے آسمان میں زندہ ہیں اور نازل ہونے کے بعد ہمارے آقائے نامدار کی تابعداری کریں گے۔ جس سے حضورﷺ کی شان اور بھی تمام انبیاء پر بالا تر سمجھی جائے گی۔ کیونکہ تمام رسولوں کے اندر کوئی ایسا رسول نہیں گزرا کہ جس کی اطاعت کسی شریعت والے نبی نے کی ہو۔ یہ رتبہ سردار مدینہﷺ کو حاصل ہے۔