احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
سے مستثنیٰ ہیں۔ گویا آپ زندہ ہیں۔ ابھی فوت نہیں ہوئے ۔ پس اس آیت سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات جسمانی کا مکمل ثبوت ہو چکا ہے۔ جواب سوم ’’سنۃ اﷲ التی قد خلت من قبل ولن تجدلسنۃ اﷲ تبدیلا (الفتح:۲۲)‘‘{عادت اﷲ تعالیٰ کی جو گزری ہے پہلے اس سے اور ہرگز نہ پاوے گا تو عادت اﷲ کی کو بدلی جانا۔} مولانا احمد علی صاحب! اگر خلت کامعنی تمہارے نزدیک موت ہے تو ترجمہ یوں کیا جائے گا کہ عادت اﷲ تعالیٰ فوت ہو چکی ہے۔ پہلے اس سے (استغفراﷲ) اگر آپ کے نزدیک خلت کا معنی موت ہے تو کیا اس معنی سے خدائے تبارک وتعالیٰ کی زبردست صفات پر حملہ نہیں ہوتا؟ یعنی اﷲ کی جو عادتیں پہلے تھیں گویا کہ وہ اب فوت ہو چکی ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ خلت کا معنی ہرگز موت نہیں۔ اس لئے ہی اﷲ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لئے استعمال فرمایا۔ جو شخص خلت کا معنی موت کرتا ہے۔ گویا وہ اﷲ تعالیٰ کی صفات کومردہ کرنے کی ناپاک کوشش کرتا ہے۔ اگر جناب مرزا قادیانی نے خلت کامعنی موت کیا ہو تو وہ ان کا اپنا ایجاد کردہ ہے۔ جواب چہارم ’’قال ادخلوا فی امم قد خلت من قبلکم من الجن والانس فی النار (الاعراف:۳۸)‘‘{یعنی اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا(کہے گا) داخل ہو جاؤ بیچ ان جماعتوں کے کہ تحقیق گزری ہیں پہلے تم سے جنوں سے اور آدمیوں سے بیچ آگ کے۔} مولانا احمد علی صاحب! اگر تمہارا ترجمہ یہاں کیا جائے کہ خلت کا معنی موت ہے تو مطلب یہ ہوگا کہ اﷲ تعالیٰ فرمائے گا کہ داخل ہو جاؤ بیچ ان جماعتوں کے جو فوت ہو چکی ہیں۔ پہلے تم سے جنوں سے اورآدمیوں سے بیچ آگ کے۔ کیا آپ قیامت کو زندہ ہونے کے بعد پھر موت آنا تسلیم کرتے ہو کہ جہنمیوں کو موت آئے گی۔ حالانکہ قرآن کریم اس بات کی نفی کرتا ہے۔ ’’ثم لایموت فیھا (الاعلیٰ:۱۳)‘‘پھر نہیں موت آئے گی بیچ اس کے۔ جبکہ جہنم میں ان کو موت نہیں آئے گی۔ پھر کیونکر قرآن کریم میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ان کے لئے لفظ خلت کو استعمال کیا ہے۔ مذکورہ بالا تمام حوالہ جات سے ظاہر ہوا کہ خلت کامعنی ہرگز موت نہیں بلکہ یہ جماعت قادیانی کا اپنا ایجاد کردہ معنی ہے۔