احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اس حدیث سے اظہر من الشمس ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پرزندہ اٹھائے جانے پر تمام صحابہؓکا اتفاق تھا او ر رسول خداﷺ نے سن کر تصدیق فرمائی۔ آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ میں رفع کا صلہ الی موجود ہے جو جسم مع الروح کے مرفوع ہونے پر برہان ہے۔ نیز جناب مرزا غلام احمدقادیانی ’’رفع اﷲ الیہ‘‘ سے ’’رفع الی السمائ‘‘ تسلیم کرتے ہیں۔ ’’قال الحسنؒ ان عیسیٰ رفعہ اﷲ الیہ فھو عندہ فی السمائ‘‘ یعنی حضرت حسنؓ سے روایت ہے کہ اﷲ تبارک وتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا ہوا ہے۔ پس اﷲ تعالیٰ کے پاس وہ آسمان پر زندہ ہیں۔ ان تمام مذکورہ بالا حوالہ جات سے ظاہر ہوا کہ واقعی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا نے جسد مع الروح ہی آسمان پر اٹھایا ہوا ہے۔ اعتراض مولانا احمد علی قادیانی لفظ ’’رفع‘‘ کے معنی اٹھانا کرنا سراسر تحکم اورزبردستی ہے۔ کیونکہ (اول) قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ کا نام رفیع الدرجات (المومن:۱۵)آیا ہے۔ یعنی وہ مومنوں کو درجہ میں بلند کرنے والا ہے۔ اس میں رفع کے معنی آسمان پر اٹھانا نہیں۔ بلکہ درجات بلند کرنا اور عزت دینا ہیں۔ جیسا کہ شاہ رفیع الدین صاحب کے مندرجہ ذیل آیات کے ترجمہ سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ۱… ’’ان ترفع (النور:۳۶)‘‘یہ کہ بلند کئے جائیں۔ ۲… ’’لا ترفعوا اصواتکم(الحجرات:۲)‘‘مت بلند کرو آواز اپنی کو۔ ۳… ’’یرفع اﷲ الذین اٰمنوامنکم(المجادلۃ:۱۱)‘‘ بلند کرے گا اﷲ ان کو کہ ایمان لائے ہیں تم میں سے۔ ۴… ’’مرفوعۃ مطہرۃ (عبس:۱۴)‘‘ بلند کئے گئے ، پاک کئے گئے۔ ان تمام آیات میں لفظ ’’رفع‘‘ ہر طریق سے بلندی اورعزت دینے کے معنی میں مستعمل ہے نہ کہ جسم کو آسمان پر اٹھائے جانے کے لئے۔ (نصرۃ الحق ص۲۹،۳۰مصنفہ احمد علی قادیانی) جواب اوّل مولانا احمد علی قادیانی نے مذکورہ بالا آیتوں کے اندر بڑی فریب دہی اوردھوکہ بازی سے کام لیا ہے۔ حالانکہ پہلی آیت کے اندر اﷲ تعالیٰ نے صاف صاف بیان فرمایا ہے کہ تم مسجدوں کے اندر بلند کرو میرے ذکر کو۔ کیا جو اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ذکر اذکار مساجد میں کیا جاتا ہے۔ وہ غالباً