احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
صلبوہ‘‘ سے بھی نفی قتل و سولی جسم ہی سے کی گئی ہے اور جملہ ضمائر ’’ما قتلوہ وما صلبوہ‘‘ ’’وما قتلوہ یقینا‘‘ راجع ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف، اور ’’المسیح عیسیٰ ابن مریم‘‘ معتبر ہے’’جسد مع الروح‘‘ اور جسم عیسیٰ کو ہی قتل اور سولی سے بچایاگیا۔ پس اس ابن مریم کو ہی زندہ اپنی طرف اٹھایا گیا۔ لہٰذاثابت ہوا کہ آیت ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ قطعی طور پرحیات عیسیٰ علیہ السلام پر دال ہے۔جیسا کہ (صحیح بخاری مع فتح الباری ج۹ ص۹۳۱، باب اذا وکّل رجلا) میں حدیث موجود ہے، ملاحظہ ہو۔ ’’لارفعنک الی رسول اﷲﷺ ‘‘ یعنی ابوہریرہؓ نے چور سے کہا کہ تجھ کو رسول خداﷺ کی طرف ضرور لے جاؤں گا۔ دوسری حدیث’’وعن اسامۃ بن زید…فرفع الی رسول اﷲﷺ الصبی (مشکوٰۃ شریف ص۱۵۰ باب البکاء علی المیت)‘‘ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ حضرت زینبؓ کا لڑکا رسول خداﷺ کی طرف اٹھایاگیا۔ ان ہر دو حدیث میں جسم کو لے جانا مراد ہے نہ کہ محض روح کو۔ پس محاورات عرب و حدیث سے ثابت ہوا کہ رفع کا مفعول کوئی جسم ہوگا۔ وہاں اس سے مراد نیچے سے اوپر کو لے جانا ہوگی اور اگر رفع کا متعلق و معمول کوئی معنی ہوگا تو اقتضائے مقام پر محمول ہوگا۔ جیسے محاورہ ’’رفعتہ الی الحاکم‘‘ میں اگر ضمیر منصوب سے مراد کوئی جسم ہے تو اس سے مراد رفع جسم ہی ہوگی اور اگر کوئی امرومعاملہ ہو تو صرف اس کا پیش کرنا مراد ہوگا۔ اس بیان کی تصدیق کے لئے مصباح منیر کی عبارت ملاحظہ ہو۔ ’’فاالرفع فی الاجسام حقیقۃ فی الحرکۃ والانتقال وفی المعانی علی ما یقتضیہ المقام‘‘ اس عبارت سے واضح ہو گیا کہ رفع کے حقیقی اور وضعی معنی نیچے سے اوپر کو حرکت او ر انتقال کے ہوتے ہیں۔ جیسا کہ عام تفاسیر بھی شاہد ہیں۔ ’’عن ابن عباسؓ قال کنا فی المسجد نتذاکر فضل الانبیاء الی ان قال فذکرنا عیسیٰ برفعہ الی السماء فدخل رسول اﷲﷺ فقال فیم انتم فذکرنا لہ‘‘ یعنی حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ہم نے مسجد میں انبیاء کا ذکر کرتے کرتے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر چڑھنے کا بھی ذکر کیا۔ پس رسول خداﷺ مسجد میں تشریف لائے اورفرمایا کہ کیا ذکر کررہے ہو؟ ہم نے پھر ساراقصہ بیان کیا۔ (تفسیر کبیر جلد دوئم ص۳۰۳مطبوعہ مصر)