احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
تھے۔ اس لئے ان کو چند الفاظ سے اطلاع دے کر واپس بھیج دیا گیا۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان موجود ہے۔ ’’واذاخاطبھم الجاھلون قالوا سلاما (فرقان:۶۳)‘‘ اگر ساتھ کتاب کا مطالبہ نہ ہوتا تو خدا کی قسم ہم کبھی اس بات کو قبول نہ کرتے کہ ابن مریم علیہ السلام آسمان پر تشریف آور ہیں۔ مگر ان کا مطالبہ یہی تھا کہ جب اترو تو کتاب ساتھ لے کر آنا۔ بھلا سوچئے! تیئس سال میں مکمل ہونے والی کتاب کو یکدم ان کے سامنے کس طرح پیش کرتے اور ان کا اعتراض تھا کہ زبور اورتورات اور انجیل کی طرح یہ قرآن مجید اکٹھا کیوں نازل نہیں ہوتا۔ اگر یہ ٹیڑھا سوال آنحضرتﷺ کے پیش نہ کرتے تو ضروری تھا کہ آپ آسمان پر ان کے سامنے تشریف لے جا کر پھر واپس آتے۔ مگر ان کا خیال تھا کہ قرآن مجید اکٹھا نازل ہو۔ جیسے اﷲ تعالیٰ نے ان کے قول کوقرآن مجید کے اندر بیان کیا ہے،ملاحظہ ہو۔ ’’وقال الذین کفروا لولا نزل علیہ القرآن جملۃ واحدۃ (الفرقان:۳۲)‘‘ {اور کہا ان لوگوں نے جو کافر ہوئے کیوں نہ اتارا گیا اوپر اس کے قرآن اکٹھا ایک بار۔} مرزائیو! یہ تھا ان کفار مکہ کا مطالبہ جو رسول اﷲﷺ کسی صورت پورا نہیں کر سکتے تھے۔ آؤ کسی مفسر سے بھی تصدیق کرا دیتا ہوں۔ آئیے ۔ الجواب دوئم محمدیؐ ’’قال الذین کفروا ابوجہل واصحابہ لولا ھلا نزل علیہ القران جملۃ واحدۃ کما انزلت التوراۃ علی موسیٰ والانجیل علی عیسی والزبور علی داؤد کذالک یقول انزلنا الیک جبرئیل بالقران متفرقا (تفسیر حضرت ابن عباسؓ مطبع مصر ج۳ ص۲۲۶)‘‘ ’’اور کہا ان لوگوں نے جو کافر ہوئے ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے کیوں نہیں اتارا اوپر محمدﷺ کے قرآن مجید اکٹھا جیسے اتاری گئی تورات اوپر موسیٰ کلیم اﷲ کے اور انجیل اوپر عیسیٰ روح اﷲ کے اورزبور اوپر داؤد علیہ السلام کے اسی طرح۔ اور کہا تھا اﷲ تعالیٰ نے اتاریں گے ہم طرف تیرے قرآن مجید کو ساتھ جبرائیل علیہ السلام کے تھوڑا تھوڑا۔‘‘ مرزائیو! انصاف کی ضرورت ہے۔ جبکہ خدا وند عالم کا وعدہ یہی تھا کہ نازل کروںگا میں اس قرآن مجید کو تھوڑا تھوڑا ساتھ جبرائیل علیہ السلام کے اوپر تیرے پھر کیونکر اکٹھا ایک دفعہ