احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
یہ اﷲ تعالیٰ کا قانون بنی آدم کے لئے مقرر ہے۔ فرمایا اﷲ تعالیٰ نے اے بنی آدم! تم زمین میں ہی زندہ رہو گے اور زمین میں مرو گے اور زمین سے ہی اٹھائے جاؤ گے۔ افسوس صد افسوس کہ ابن مریم علیہ السلام اس قانون الٰہی سے کیونکر مستثنیٰ ہو کر اپنی زندگی آسمان پر بسر کر سکتے ہیں۔ کیا وہ آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد میں سے نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر یہ ضروری ہے کہ ان کی زندگی اس زمین پر ہی گزرتی۔ قانون الٰہی تو بیشک ٹوٹ جائے لیکن اپنی ضد سے باز نہیں آؤ گے۔ دوستو! اگر تمہارا ایمان قرآن مجید پر خدا کا کلام ہونے کا ہے تو پھر اس آیت پر عمل کر کے ایمان لے آؤ کہ ابن مریم فوت ہو چکے ہیں۔ الجواب محمدیؐ اول مرزائیو!واہ آپ کی ہوشیاری…’’قال فیھا تحیون‘‘ جو آپ نے اس آیت کو قانون بنی آدم کے لئے قرار دیا ہے۔ سوال کیااس آیت کے پہلے’’یابنی آدم‘‘ الفاظ قرآن مجید کے اندرموجود ہیں؟ اگر ہیں تو دکھائیے پھر میں مبلغ پچاس روپے انعام دوں گا۔ مگر قرآن مجید کے اندر اس آیت کے قبل ’’یا بنی آدم ‘‘نہیں ہے۔ یہ صرف تمہاری ہوشیاری ،مکاری کا جال ہے۔ شرم کرو،جو بات قرآن مجید نے مخلوق خدا کے لئے پیش نہیںکی،تم اپنی طرف سے کیوں بنا کر کلام الٰہی قرار دے رہے ہو؟ یہی مکر و فریب یہود و نصاریٰ کے اندر موجود تھے۔ وہ بھی اپنی طرف سے بناوٹی باتیں بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کیا کرتے اور پھر اس کو کلام الٰہی قرار دیتے تھے جو آپ نے اس آیت سے حضرت ابن مریم علیہ السلام کی حیات پر اعتراض کیا ہے کہ وہ زندہ اس لئے نہیں ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’قال فیھا تحیون وفیھا تموتون وفمنھا تخرجون‘‘ وہ اپنی زندگی اس قانون الٰہی سے باہر ہو کر آسمان پر بسر نہیںکر سکتے،لہٰذا فوت ہو گئے۔ مرزائیو! یہ آیت تو ان کے لئے ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ساتھ زمین پر اتارے گئے۔ عربی عبارت قرآن مجید کی پیش کرتاہوں۔ ’’قال اھبطوا بعضکم لبعض عدولکم فی الارض مستقر ومتاع الی حین،قال فیھا تحیون وفیھا تموتون ومنھا تخرجون(اعراف:۲۴،۲۵)‘‘ {کہا ہم نے اترو سارے اب بعض تمہارے واسطے بعض کے دشمن ہیں اورواسطے تمہارے بیچ زمین کے ٹھکانا ہے اور فائدہ ہے موت تک اور بیچ اس کے زندہ رہو گے اور بیچ اس کے مرو گے اور اس سے اٹھائے جاؤ گے۔}