احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
یعنی آپ خاتم النّبیین ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس نبی کے بعد کوئی نبی ہو۔ اگر کوئی بات نصیحت اور بیان کی چھوڑ جائے تو بعد میں آنے والا اس کا تدارک کر سکتا ہے۔ مگر جس نبی کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ وہ اپنی امت کے حق میں بہت شفیق اور بہت زیادہ ہدایت کرنے والا ہوتا ہے۔ ان عبارتوں میںعلماء نے پہلے قصے کے ساتھ خاتم النّبیین کی مناسبت بھی بیان کر دی ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جاہلیت میں یہ دستور تھا کہ جس کا اپنا لڑکا نہ ہوتا۔ وہ کسی کو اپنی متنبی بنا لیتا اور اس کے ساتھ حقیقی بیٹے کا تعلق رکھتے۔ وہ جائز وارث ہوتا اوراس کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنا حرام ٹھہرتا۔ آنحضرتﷺ نے بھی زیدؓ کو اپنا بیٹا بنایا تھا۔ قرآن نے اس حکم کو منسوخ کیا اور اس پر آنحضرتﷺ سے عمل کرایا۔ اس آیت میں اس پر عمل کرانے کی وجہ بیان کی ہے کہ اگر آپﷺ سے عمل نہ کرایا جاتا تو لوگ عملی طور پر شاید اس کو منسوخ نہ سمجھتے اورآپﷺ کے بعد کوئی نبی بھی نہیں۔ جو اس پر عمل کراتے۔ اس واسطے ضروری تھا کہ اس رسم کو آپﷺ ہی کے عمل سے اٹھایا جائے۔ پس خاتم خواہ فتح تاء سے ہویا کسرہ سے خواہ اس کے معنی مہر کے ہوں یا آخر کے یا ختم کرنے والے کے ہر صورت میں اس کا مفہوم یہی ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ اس میں نبوت کی کوئی تخصیص نہیں کہ وہ اصلی ہو یا بروزی اورظلی، تشریعی ہو یا غیر تشریعی۔ اگر غیر تشریعی کا وجود ہوتو غیر تشریعی نبوت بھی ختم ہے۔ اگر اس کا وجود ہی نہیں تو وہ پہلے ہی معدوم ہے۔ پھراس کے ختم ہونے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اس معنی کی تائید میں حدیثیں بھی وارد ہیں۔ ان کا ذکر آگے آئے گا۔ دوسری آیت جس میں ختم نبوت کاذکر ہے: ’’واذاخذ اﷲ میثاق النّبیین لما اٰتیتکم من کتاب وحکمۃ ثم جاء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ (آل عمران:۸۱)‘‘ {جب اﷲ تعالیٰ نے نبیوں سے عہد لیا کہ تم کو میں کتاب و حکمت عطاء کروںگا۔ پھر جو رسول آئے گا جو تمہاری تعلیم کامصدق ہو گا۔ اس پر تم نے ضرور ایمان لانا ہوگا۔} جلالین میں ہے ’’ھومحمد‘‘ وہ رسول محمدؐ ہے۔ یعنی جس نبی پر ایمان لانے کا عہد سب نبیوں سے لیا گیا ہے۔ وہ جناب آنحضرتﷺ ہیں۔ اس آیت میںصاف طور پر مذکور ہے کہ آپﷺ سب نبیوں کے بعد آنے والے ہیں۔