احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
ضرورت نہیں، وہاں آپ شور مچاتے ہیں۔ اب میں سمجھا کہ تحفظ ختم نبوت کی تحریک میں مولوی عارف اﷲ نے جیل سے آکر اس تحریک کے قائدین کو کیوں کوسا اور اس کے مقابل اپنی انجمن تحفظ شان رسالت قائم کرکے مسلمانوں کو مرزائیت کے مقابلے سے موڑ کر پھر سے مفروضہ وہابیوں او ر حضورﷺ کو عالم الغیب اور حاضر ناظر نہ ماننے والوں کے خلاف کیوں اکسانے لگے۔ اگر مرزائیت کا مقابلہ کرنا فتنہ ہے تو کیا یہ فتنہ نہیں ہے ۔ جس کے ذریعے تمام اہل سنت والجماعت کا شیرازہ منتشر کر رہے ہو؟ کہنے لگے، تمہارا کیا خیال ہے،ختم نبوت کی تحریک چلا کر لوگوں نے کیا کرلیا،کیا مرزائی ختم ہو گئے؟ میں نے کہا کہ یہ ٹھیک ہے کہ ہر فتنے کی پیدائش اوراس کے عروج کا وقت اﷲ تعالیٰ کی جانب سے مقرر ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ جن مسلمانوں کی موجودگی میں کوئی فتنہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ سمجھ لیں کہ اﷲ تعالیٰ کو ان کے ایمان کا امتحان منظور ہے۔ جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں:’’احسب الناس ان یترکوا ان یقولوا امنا، وہم لایفتنون (عنکبوت :۲)‘‘ {کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ صرف زبان سے ہم ایمان لے آئے کہنے سے چھوٹ جائیں گے اور وہ آزمائے نہ جائیں گے۔} تو جو مومن اور مسلم ہو گا وہ تو دل و جان سے اس فتنے کا مقابلہ کرتا رہے گا۔ خواہ اس میں اس کی جان جاتی رہے اورفتنہ برقرار رہے۔ کیونکہ فتنے کا مٹانا تو اﷲ کی مرضی پر ہے۔ مومن و مسلم کاکام تو اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ لیکن جو منافق ہوتے ہیں وہ مصلحت وقت کو اپنا شعار بنا کر پہلو تہی کر جاتے ہیں۔ اب میں ’’دلق ملمع‘‘ میںپیر خضری کے متعلق لکھے ہوئے اپنے دو شعر لکھ کر اس مضمون کو ختم کرتا ہوں: یہ پیر دیولی ہیں یا کہ اوجھڑی شریف ہیں یہ دین حق کے واسطے بڑے ستم ظریف ہیں عیار قادیان کے یہ اولیں حریف ہیں وہ حاصل ربیع تھے یہ حاصل خریف ہیں فقط: والسلام علی من التبع الھدیٰ! احقر العباد غلام نبی میر ناسک۔ مدرسہ خام الالسلام گلی نمبر۲ سید پوری گیٹ راولپنڈی۔ ۲۷؍اپریل ۱۹۶۱ئ!