احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
بحث نہیں کر سکتا کیونکہ نمازوں کا پانچ ہونا ضروریات دین سے ہے۔ اسی طرح یہ مسئلہ کہ آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کسی کو مل سکتی ہے یا نہیں، ایک شخص مسلمان کہلا کر اس کو زیر بحث نہیں لا سکتا۔ ۲… جن مسائل پر امت کا اتفاق ہو۔ مگر وہ ضروریات دین میں داخل نہیں۔ ان کے انکار سے اس وقت تک ایک مسلمان معذور ہو سکتا ہے جب تک اس کو علم نہ ہو۔ علم کے بعد پہلی قسم کی طرح ان کو بھی زیر بحث نہیں لایا جا سکتا۔ ۳… وہ مسائل جن میں اختلاف ہے، ان کی دو قسمیں ہیں۔ الف… وہ مسائل جن میں ایک طرف صریح دلیل موجود ہو اور دوسری طرف صرف قیاس ہو۔ ان میں حکم یہ ہے کہ جس کو پورے طور پر دلیل کا علم ہو جائے،وہ قیاس کو چھوڑ دے۔ ب… وہ مسائل جن میں دونوں طرف صریح دلیل موجود نہیں۔ صرف قیاس ہی قیاس ہے۔ یا غیر صریح دلیل ہے۔ ان میں حکم یہی ہے کہ جس طرف اطمینان ہو۔ اس پر عمل کرے۔ پس ختم نبوت کا مسئلہ اس قسم کانہیں ہے جس میں اختلاف ہو یا اس کو زیر بحث لایا جا سکے۔ جب ایک شخص مسلمان کہلاتا ہے۔ تو اب اس کے لئے اس مسئلہ میں بحث کرنا جائز نہیں۔ کسی مسئلہ کو زیربحث لانے کا یہ مطلب ہے کہ اس میں شک ہو۔ شک کو رفع کرنے کے لئے بحث کرے۔ اس کے دلائل کی دلالت میں بحث کرنا (کہ ان کی دلالت قطعی ہے یا ظنی یا دلائل کس قدر ہیں یا فلاں دلیل سے بھی یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں) الگ امر ہے۔ پس کسی مسئلہ کا ضروریات دین سے ہونا الگ امر ہے اور اس کے دلائل میں بحث کرنا کہ ان سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے یا نہیں، الگ چیز ہے۔ مثلاً یہ مسئلہ کہ (نمازیں پانچ ہیں) ضروریات دین سے ہے۔ اس میں شک کرنے سے انسان کافر ہو جاتا ہے۔ مگر کسی خاص آیت یا حدیث سے اس کا ثابت کرنا قابل تحقیق ہے۔ اگر کسی خاص آیت کے متعلق کوئی کہے کہ اس سے پانچ نمازیں ثابت نہیں ہوتیں تو اس کو کافر نہیں کہا جا سکتا۔ پس کسی اتفاقی مسئلہ کے متعلق جو ضروریات دین سے ہو۔ شک کی صورت میں بحث کرنا کفر ہے اور اس کی کسی خاص دلیل کی دلالت پر بحث کرنا اس وقت تک کفر نہیں۔ جب تک اس کی دلالت پر اجماع نہ ہو۔ اجماع کی صورت میں بھی اس وقت کفر ہو گا۔ جب اس کو اس اجماع کا علم ہو۔ پس یہاں تین باتیں یاد رکھنی چاہئیں۔