قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
دوسرا سبب ِمحبت،کما ل ہے۔ اور معیار ِکما ل صرف دوچیز یں ہیں : ایک ہے علم ِو سیع اور دوسری چیز ہے عقلِ سلیم۔ جہاں تک علم کا تعلق ہے خودلسانِ رسا لت، سر اپاصدا قت کے یہ الفا ظ ہیں کہ ’’اُوْتِیْتُ عِلْمَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْاٰخَرِیْنْ‘‘۔ اور عقل کے متعلق شیخ شہا ب الدین کبرو دی نے عو ا رف المعا رف میں نقل کیا ہے کہ حق تعالیٰ نے تخلیق ِعقل کے بعدعقل کے سو حصے کئے،ننانوے حصے سرکارِدوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کوعنایت فرمائے اورایک حصہ بقیہ تما م انسا نو ں پر تقسیم ہوا ، کسی نے سچ کہا ع……بعد از خدا بز رگ تو ئی قصہ مختصر تیسرا سبب ِمحبت احسان ہے ،انسا نی فطر ت ہے کہ اپنے محب کے احسا ن سے متاثرہوکرمحبت کرتاہے،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسا ن معنوی بھی ہے اور ما دی بھی، آ پ صلی اللہ علیہ وسلم محسن ِہدایت بھی ہیں اورمحسن ِانسانیت بھی کہ آپؐ نے انسا نیت کو جہنم کے قعرِ عمیق سے نکا ل کر صراط ِمستقیم کی شاہ ر ا ہِ نجا ت پرلگا یا،ادھر عطائے ظاہر ی کایہ حال تھا کہ آپ کی زبا ن مبار ک سے کبھی’’لا‘‘ کاتلفظ نہ ہوسکا ،فرزدق کا یہ شعرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دریادلی پربالکل صحیح صادق آتاہے۔ ؎ ماقَالَ لَاقَطُّ،إلاَّفِیْ تَشَہُّدِہٖ لَوْلاَالتَّشَہُّدُ لَکَانَتْ لاَئُ ہٗ نَعَمٗ (دیوان فرزدق) بہرحال تیسر ا سبب ِمحبت،احسا ن ہے ۔اور علیٰ وجہ الکمال آپ کے اند ر مو جو د تھا،کسی نے کہا ’’الانسان عبدالاحسان‘‘ اس پر ہمار ے استا ذ محتر م مفسر قر آ ن محدثِ شہیر حضر ت مولاناابرا راحمد صاحب دھو لیوی ؒ کا حاشیہ تھا ، فرماتے تھے کہ الانسان عبد