قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
الٰہی میں قبو ل ہوئیں ، مجھے امید ہی نہیں بل کہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ چو تھی دعاء بھی ضرو ر قبو ل فر ما ئیں گے۔ بہرحال حد یث ِپا ک جو ا مع الکلم کی قبیل سے ہے جس میں ارشا د فر ما یا گیا کہ اگر تم اپنے دعوائے ایما ن میں کا مل معیار پر اتر نا چاہتے ہو، تو جب تک تمہارے دل میں رسو لِ کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر چیز پر غالب نہ آ جائے ،حتی کہ ان پر بھی جن سے تمہارا محبت ِطبعی کا تعلق ہے یعنی تمہار ے اصو ل والدین اور تمہار ے فر و ع اولادپر بھی، وہاں تک تم اپنے دعویٔ ایما ن میں صا دق نہیں ۔ محبت نا م ہے’’مَیْلاَ نُ الْقَلْبِ إلـٰی شَئ‘ ‘کا ،یعنی کسی چیز کی طر ف دل کا میلا ن ہو نا۔ محدث ِکبیر علا مہ انور شا ہ کشمیری ؒ بڑی عمدہ اوردل لگتی با ت فیض البا ر ی جلد ۱؍ ص ۱۸؍ میں رقم طر ا زہیں کہ محبت کی تقسیم در حقیقت فلسفیا نہ مو شگا فی ہے البتہ تعلقا ت وحیثیا ت کے اختلا ف سے اس کے نام مختلف ہوسکتے ہیں : اگر قلب کا میلا ن امو رِ طبعیہ کی طر ف ہو،تومحبت ِطبعی۔ اگر قلب کا میلا ن عقلیا ت سے ہو ،تو محبت ِعقلی۔ اور اگر قلب کا میلا ن امو رِ شر عیہ ایما نیہ کی طرف ہو ،تو محبت ِایما نی اور شر عی۔ حاصل کلا م یہ ہے کہ روایت ِبالا میں حضورِ انورصلی اللہ علیہ وسلم نے محبت کا مطا لبہ کیاہے اور محبت نا م ہے قلبی میلا ن کااوریہ میلا نِ قلبی غیر اختیار ی ہے، تومحبت بھی غیر اختیار ی ہوئی لہٰذامحبت کامکلف بناناازقبیل ِتکلیف ما لا یطا ق ہے ؟ علما ء اور شر اح حدیث نے اس کے متعدد جو ابا ت دیئے ہیں ۔ (۱) پہلے جو ا ب کا حاصل یہ ہے کہ محبت ِطبعی،غیراختیار ی ہے جب کہ محبت ِعقلی اس