قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ارے صاحب!نیکی اور وہ بھی پوچھ پوچھ۔ ان ہی مطلوبات بل کہ تقرباتِ خدا وندی کے ذرائع اوراسباب میں ایک سبب اور ایک عبادت ہے، جسے قربانی سے تعبیر کیا جا تا ہے، جس کی بابت ارشاد ربانی ہے کہ : ’’لَنْ یَنَالَ اللّٰہَ لُحُومُہَاوَلَادِمَائُ ہَاوَلٰـکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ‘‘(الحج۳۷؍) اللہ کے یہاں نہ توگوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون،بل کہ وہاں جذبۂ دروں کی رسائی ہوتی ہے ،جس کے اندر جس قدر جذبۂ ر ضاء الٰہی اور جذبۂ تقربِ خداوندی ہوگا، وہ اسی قدر قربانی کو بہتر سے بہتر انداز میں پیش کرے گا۔ زیر نظر حدیث پاک کے ترجمہ پر ایک مرتبہ اور نظر کرلیجئے، تو اندازہ ہوگا کہ قربانی شعائر اللہ سمجھ کر ،جانور کو کس اہتمام والتزام سے خریدنا چاہیے اور اس کی تروتازگی کا کتنا خیال رکھنا چاہیے۔ دیکھئے ! یہ حدیث پاک کس قدر مفید ہدایات ودروس پر مشتمل ہے: (۱)…فَاَمَرَنَانَجْمَعُ:اس سے پتہ چلتا ہے، بڑوں کو ہر موقع اور محل کے مناسب اپنے چھوٹوں اور ماتحتوں کو توجہ دلانا، فکر دلانا چاہئے تاکہ وہ بھی اس کارِخیر میں شریک ہوں ۔ (۲)…لِکُلِّ وَاحِدٍمِّنـَّادِرْہَمًا:اشتراکیت میں مساوات مطلوب ہے۔فائدہ: سات درہم کا جانوراس دورمیں فراہم ہوتاتھااورہرشریک نے ایک ایک در ہم نکالا،معلوم ہواکہ اشترا کیت میں مساوات مطلوب ہے۔ (۳)…بڑے جانور کو خریدنے سے پہلے شرکاء کی تعیین ہونی چاہیے۔ (۴)…قربانی دہندگان ،ذبح کے وقت حاضر ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ (۵)…قربانی کاجانورخریدنے میں فراخ دلی سے کام لیناچاہیے،اس لیے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’أفضل الضحایاأغلاہاوأسمنہا‘‘۔