قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
اکابر اور ہم مشرب مشائخ کا یہ طریقہ اور وطیرہ رہا ہے کہ یکسانیت اور وحدت کو پیداکر نے کے لیے مختلف انداز واسلوب اختیار کرتے ہیں ،جیسے حضرت شاہ ابرار الحق صاحب ہر دو ئی رحمۃ اللہ علیہ کے یہاں کوئی طالب صادق پہنچتا تو اسے نورانی قاعدہ اور تصحیح ِقرآن کی رغبت دلاتے،گو شیخ الحدیث ہو، یااساتذۂ فقہ وحدیث یا اساتذۂ منطق وفلسفہ سب میں یکسانیت پیدا کرنے کرانے کے لیے اور ایک لڑی میں سب کو پرونے کے لیے سب سے نورانی قاعدہ پڑھواتے۔ گویاپہلامقصدتویہ کہ رضائے الٰہی کے ساتھ مرکزاور فروعات کے درمیان یکسا نیت پیداکرناچاہئے، وہ یکسانیت نظامِ تعلیم وتربیت کی ہویانظامِ مطبخ وتعمیرات کی یایکسا نیت شعبۂ حفظ کی ہویادینیات کی،یایکسانیت انداز ِدرس وتدریس کی ہو یابودباش کی یا نظام ِ امتحان کی، بہر حال مقصد ِاول حصولِ یکسانیت ہے۔ دوسرا مقصد انتقالِ محاسن، مشہورمقولہ کے مطابق’’ خذماصفاودع ماکدر‘ ‘ اللہ نے ہر ایک کو کسی نہ کسی خوبی سے آراستہ کیا ہے، دانشمند اوردوراندیش کاکام یہ ہے کہ وہ ہر ایک کی خوبی پر نظر کر کے اُسے اخذ کرے، اسی سے انسان میں کمال پیدا ہوتا ہے ، بہر حال دوسری غرض انتقالِ محاسن ہے۔ تیسری غرض یہ کہ احساس ِکمزوری’’الانسان مرکب من الخطأوالنسیان‘ ‘ کے بموجب سمجھدار انسان کو چاہئے کے اپنے اندر کی جو کمزوری ہے اسے محسوس کر کے اس کا ازالہ کرے اور اپنے آپ کو مجموعۂ محاسن بنائے ،بہر حال آج کی اس محفل کی غرض و غا یت سب کو یکسانیت کی ـــلڑی میں پرونا،انتقالِ محاسن کاجذبہ پیداکرنااور کمزوری کااحساس کرکے ازالہ کی کوشش کرناہے۔ ان تمہیدی اورابتدائی کلمات کے بعد آئیے چندرہنماخطوط بطورمذاکرہ کے