قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج کے حالات سے بہت پہلے ہی مطلع فرما دیا تھا،اوراس دورمیں مسلمانوں کی جوذمہ دارایاں بنتی ہیں انہیں بھی بیان فرمادیاتھا،امام ابوداؤدؒ نے ایک روایت نقل کی ہے ’’حضرت عرباض بن ساریہ فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نمازپڑھائی پھرہماری طرف متوجہ ہوئے اورایسا بلیغ وعظ فرمایاکہ اس کی وجہ سے آنکھیں بہنے لگیں اوردل کانپ اٹھے،ایک شخص نے کہا یا رسو ل اللہ! یہ تورخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے،توآپ ہمیں کس بات کاعہد فرماتے ہیں ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،میں تمہیں اللہ سے ڈرنے اورامیرکی بات سننے اورماننے کی وصیت کرتاہوں اگرچہ وہ امیرحبشی غلام ہو،کیوں کہ جومیرے بعدزندہ رہے گا وہ بہت سے اختلاف دیکھے گا توتم میرے اورہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے پر جمے رہنا اوراس کو دانتوں سے مضبوطی کے ساتھ پکڑلینا اوردین میں نئی نئی باتیں پیداکرنے سے بچنا،کیوں کہ دین میں ہرنئی بات بدعت ہے اورہر بد عت گمراہی ہے‘‘۔(ابوداؤد۲/۶۳۵کتاب السنۃ،باب فی لزوم السنۃ) مذکورہ روایت سے اختلافات کے موقع پرہم پرجوذمہ دار یا ں عائد ہوتی ہیں وہ معلوم ہوگئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کے طریقے کومضبوطی سے پکڑ لیاجائے اور دین میں کسی بھی قسم کی نئی بات پیداکرنے سے بچا جائے کیونکہ دین میں نئی بات پیدا کر نابدعت ہے جوکہ گمراہی کاسبب ہے۔ یہ تمام ذمہ داریاں تو ہر عام وخاص پر عائد ہوتی ہیں کہ ا للہ رب العزت کی اطاعت کو مقصد بنا یا جائے اور رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐکے خلفائے راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام لیا جائے ،وغیرہ۔ مگر علماء اوراصحاب فکرودانش پر اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داریا ں بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کو ان باتو ں کی تلقین کریں ،