قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
شخصیات کو مارڈالنے کی اسلام اجازت دیتاہے؟جیساکہ آج امت مسلمہ کایہ حال ہوچکا ہے اوردشمنانِ اسلام نے منصوبہ بندی کرکے ہمارے ان اختلافات کو بھڑکاکرتباہی مچا رکھی ہے،اورایسی حالت میں علماء،اصحاب فکرودانش اورعام مسلمانوں کی کیاذمہ داریا ں ہیں ؟ جہاں تک اس سوال کے پہلے جزوکی بات ہے کہ اسلام کسی فرقے کو اس کے بعض عقائدکی بناپربے دریغ قتل کرنے اوران کے مذہبی شخصیات کومارڈالنے کی اجاز ت دیتاہے؟تواس کا جواب توظاہرہے کہ اسلام اس طرح کسی کی گمراہی کی بناء پراس کوعام حالات میں یوں ہی قتل کرنے کی ہرگزاجازت نہیں دیتا،کیوں کہ اسلام نے توجنگ کے موقع پربھی حدودقائم کئے ہیں جن سے تجاوزکرنے کی کسی کواجازت نہیں ہے، چناں چہ تمام انسانیت کے محسن حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کے موقع پر عورتوں ، بچوں اورکمزوربوڑھوں کوقتل کرنے سے منع فرمایاہے،اسی طرح کسی کے کان ناک کاٹ دینے یا اسے آگ میں جلادینے سے بھی منع کیاہے۔ جب اسلام میں جنگ کے موقع پربھی اس کی ممانعت ہے تواس بات کی اجاز ت کیسے ہوسکتی ہے کہ ایک شخص یا جماعت کو یونہی عام حالات میں بے دردی سے مار دیا جائے اوراس کے گھربارکو جلادیا جائے اورعصبیت کا ایساناچ ناچاجائے کہ بچو ں تک کو مارکر ہلاک کردیاجائے، اس طرح کی قتل وغارت گری اسلامی تعلیمات کے صریح مخالف ہے،اس لیے اسلام کے جانشین ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو ایسی حرکتو ں سے بازرہنا ضروری ہے۔ اب رہ گیاسوال کا دوسرا جزو کہ ایسی حالت میں علماء، اصحاب فکرودانش اورعام مسلمانوں کی کیا ذمہ داریاں ہیں ؟یہ ایک ایسا اہم سوال ہے جوعوام وخواص کواپنی ذمہ داری اورایسے طرزعمل کی طرف دعوت دیتاہے جس کی وجہ سے امت کی موجودہ زبو ں