قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ہیں اس لیے دونوں پر وضاحت کے ساتھ تنقیدکی جائے گی مگر تنقیدمیں بھی اس کے حدود وآداب کا لحاظ رکھنا توبہرحال ضروری ہے،خاص کرتکفیرکے سلسلے میں ،کہ یہ بڑاسنگین امر ہے،اس لیے اس میں مکمل احتیاط سے کام لینابھی ضروری ہے۔ کسی فکر یاعقیدہ کو گمراہی یاکفرقراردینے میں درج ذیل چندامورکالحاظ رکھا جائے: (۱) مقصدصرف اورصرف احقاق حق اورابطال باطل ہو ورنہ محض اغراض ِ نفسانیہ کے لیے کسی شخص یا فرقے کو گمراہ یاکافرقراردینابڑی خطرنا ک بات ہے،اورجب کوئی شخص اغراض نفسانیہ کوہی اپنامقصدبنالیتاہے توپھرحق وباطل میں تمیزکی صلاحیت بھی ختم ہوجا تی ہے،اس لیے کسی کی طرف گمراہی کی نسبت کرنے میں پوری احتیاط کو ملحوظ رکھنا چاہئے۔ (۲) کسی کی تکفیرکرنے میں مکمل احتیاط سے کام لیاجائے اورحتی الامکان اس کے کلام کی کوئی بہترتاویل کرنے کی کوشش کی جائے،تکفیر کے سلسلے میں بلاسوچے سمجھے اقدا م کرنابڑے خطرے کی بات ہے،امام بخاری ؒنے ایک روایت نقل کی ہے ’’لایر می رجل رجلابالفسوق ویرمیہ بالکفرإلاارتدت علیہ إن لم یکن صاحبہ کذالک‘‘جوکوئی شخص کسی دوسرے کی طرف فسق یاکفرکی نسبت کرتاہے تو وہ فسق اور کفر خود اسی کی طر ف لوٹ آتاہے اگراس کا ساتھی(دوسراشخص)اس کا مستحق نہ ہو‘‘۔ (فتح الباری،رقم الحدیث:۶۰۴۵/باب ماینہی عن السباب واللعن) (۳) تنبیہ وتنقیدکرنے میں مقابل کی اصلاح مقصودہو، اس کوذلیل کرناہرگزمقصود نہ ہو۔ (۴) فاسق وگمراہ شخص سے اس کے فسق وفجورکی بناء پر اگرچہ ترک تعلق محمودومستحسن ہے،لیکن اگرایسا کرنے میں اس کی اصلاح کی توقع باقی نہ رہتی ہواوراس کے ضدپر اڑ