قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
قائم کرے مگر اس کایہ مطلب نہیں کہ ایک فریق دوسرے فریق کو گمراہ اور دین سے خارج ہی قرار دینے لگے کہ یہ صحابہ، تابعین اور اسلاف کے نظریہ کے بھی خلاف ہے اور اس سے امت کا شیرازہ منتشر ہوجائے گا اس لیے فروعی مسائل میں اختلاف کو تشدد کی صورت نہیں دینی چاہئے۔ یہاں پرضمناً اس بات کوذکرکرنا بھی مناسب معلوم ہوتاہے کہ کچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں ،جن میں ایک ہی مسلک سے تعلق رکھنے والے علماء کے مابین بھی استحباب وعدم استحباب کا اختلاف ہوتاہے،ایسے اختلافی مسائل بیان کرنے میں بھی تشدد سے کام نہیں لینا چاہئے۔مثلاً: آب زم زم کے سلسلے میں بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کھڑے ہوکرپیناثابت ہے تواسے کھڑے ہوکر ہی پیناافضل ہے اس لیے اس کا اہتمام کرناچاہئے،جب کہ دیگربعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جوکھڑے ہوکر پینے کا ثبوت ملتاہے وہ کسی عذرکی بناء پرتھا، لہٰذا اس کے لیے ایسااہتمام کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کوئی شخص بیٹھاہواہوتوآب زم زم پینے کے لیے کھڑا ہوجائے، ہاں اگراتباع سنت کی نیت سے کبھی کھڑے ہوکرپی لیاجائے تویہ باعث ثواب ہوگا۔ اب جب کہ علمائے احناف ہی کے دوالگ الگ نظریات اس سلسلے میں موجود ہیں اوریہ دونوں نظریے صرف استحباب اورعدم استحباب کے بارے میں ہیں تواس کو بیان کرنے میں تشدد اختیار کرنامناسب نہیں ہے،کیوں کہ یہ تشددبسااوقات انتشارکی صورت بھی پیدا کردیتاہے،لہٰذا بہتر یہی ہے کہ جوشخص جس نظریے پرعمل کررہاہواسے اس کے حال پرچھوڑدیاجائے۔