قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ر سا لت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ار شا د فر ما یا کہ’’إنَّہٗ لاَیَرْبُوْلَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إلاَّکَانَتِ النَّارُأوْلـٰی بِہٖ‘‘کہ انسان کے جسم پر جو گو شت حر ا م کھا کر بنا ہو گا، وہ جہنم کا ایند ھن ہے، اسی و اسطے ہر مو من کوا س بات کااہتمام لا زم ہے کہ جوکچھ وہ کھارہاہے، اس کے حلال ہو نے کا پور ا اطمینا ن حا صل کر لے کہ کو ئی حرا م چیز اپنے حلق سے پیٹ میں نہ جا ئے ، کیو ں کہ اللہ تعالیٰ حر ا م طر یقے سے کما ئے ہوئے پیسہ کو دنیا میں بھی عذا ب بنادیتے ہیں ،مثلاًکبھی جائداداوربینک بیلنس بہت ہوگیا،لیکن مصیبتیں آرہی ہیں ،آ فتیں آرہی ہیں ، ڈا کے پڑرہے ہیں ، اغو ا ہو ر ہا ہے کبھی طر ح طر ح کی بیما ریا ں لگ رہی ہیں ، یہ ساری بے بر کتی رزقِ حر ا م اورمالِ حرا م کی پا داش میں ہے ، حر ا م ما ل کا سب سے بڑا او ر خطر نا ک نقصا ن بے بر کتی کے سا تھ ساتھ یہ ہے کہ انسا ن کے اند ر سے ایما ن کی حس سلب ہو جاتی ہے ،جس کا اثر یہ ہو تا ہے کہ اچھے بر ے کی تمیز نہیں رہتی ، عقل ایسی ہو جا تی ہے کہ حق کو نا حق اور نا حق کو حق سمجھنے لگتا ہے ، دل کے اند ر ایک تا ریکی اور ظلمت چھا جا تی ہے ، جس کا احسا س ہر کس و نا کس کو نہیں ہو تا۔ حکیم الا مت ،مجدد ملت ، حضر ت تھا نو ی ؒ اپنے استا ذ حضرت مو لا نا یعقو ب نا نو تو ی ؒ کے متعلق تحر یر فرماتے ہیں ،کہ ’’ میر ے استا ذ نے ار شا د فر ما یا کہ ایک مر تبہ میں ایک دعو ت میں چلاگیااور وہا ں جاکرکھا ناکھا لیابعدمیں پتہ چلااس شخص کی آ مد نی مشکو ک ہے ، فرما تے ہیں کہ میں مہینو ں تک ان چند لقمو ں کی ظلمت محسو س کر تارہا اور میر ے دل میں گنا ہ کے جذ بات پید ا ہو تے ر ہے ، حر ا م ما ل سے یہ ظلمت پید ا ہو جا تی ہے ، اسی لیے تو قر آ ن کا مطالبہ ہے یایہاالرسل کلوامن الطیبٰت واعملواصالحااے رسو لو ! پا کیز ہ اور حلا ل چیزیں کھا ئو اور نیک عمل کر و ‘‘ یعنی کہ اچھے اعما ل کا صد و ر مو قو ف ہے ر زق حلا ل پر اس حقیقت کو علامہ اقبا ل ؒ نے یو ں آ شکا را کیا ہے ؎