قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
بالإکتساب مع غنی الأبناء ترک للإحسان إلیہم وإیذائہم وہولایجوز،ویقبح بالإنسان أن یکلف قریبہ الکسب مع إتساع مالہ۔ اوراولادپرنفقہ واجب ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ اولادمالدار ہویا قادر علی الکسب ہوأن یکون الفرع موسرًابمال أوقادرًا علی التکسب فی رأی الجمہور۔ نیزایک شرط یہ بھی ہے کہ اولاد کامال یااس کی کمائی اپنی ذات کے نفقہ سے زائدہو،اگراس کامال اورآمدنی صرف اتنی ہے کہ جس میں صرف اس کا گذر بسر ہوسکتا ہے تواس پرکوئی شے واجب نہیں ہوگی۔ وعلی رأی الجمہور،یشترط أن یکون مال الفرع أومردودکسبہ فاضلا عن نفقۃ نفسہ إمامن مالہ وإمامن کسبہ فأمامن لایفعل عنہ شئفلیس علیہ شئ لحدیث جابرالمتقدم’’إذاکان أحدکم فقیرافلیبدأبنفسہ،فإن فضل فعلی عیالہ،فان کان فضل فعلی قرابتہ،وفی لفظ ابدأبنفسک ثم بمن تعول۔ صاحب فتح القدیرفرماتے ہیں ’’وعلی الرجل أن ینفق علی أبویہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ إذاکانوافقراء یوافق باطلاقہ قول السرخسی حیث قال إذاکان الأب قادراعلی الکسب یجبرالإبن علی نفقتہ،بخلاف قول الحلوانی أنہ لایجبرإذاکان الأب کسوبالأنہ کان غنیابإعتبارالکسب فلاضرورۃ فی إیجاب النفقۃ علی الغیر۔۔۔۔۔۔۔ فالمعتبرفی إیجاب نفقۃالوالدین مجردالفقر،قیل ہوظاہرالروایۃ لأنہ معنی الأذی فی إیکالہ إلی الکدوالتعب أکثرمنہ فی التأفیف المحرم بقولہ تعالی فلا تقل لہماأف‘‘ اورصاحب بدائع الصنائع علامہ کاسانیؒفرماتے ہیں ’’وأمانفقۃ الوالدین فلقولہ تعالٰی’’وقضی ربک أن لاتعبدواإلاإیاہ وبالوالدین إحسانا‘‘ (الاسراء۲۳)ای أمر ربک’’ وقضی ربک أن لاتعبدواإلاإیاہ‘‘ (الاسراء۲۳)أمرسبحانہ وتعالٰی’’ووصینا