قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
اسلامیہ (بڑاقبرستان) سے فراغت حاصل کر کے مالیگاؤں کے ہی ایک ادارے کو اپنی محنت کامیدان بنایا، پھراپنی مادر علمی ہی میں تدریسی خدمت انجام دی، یہ وہ ادارہ ہے جہاں حضرت مولاناعلامہ انورشاہ کشمیری ؒ کے شاگرداورجامعہ ڈابھیل کے فاضل حضرت مولاناجمال الدین لبیبؒ براجمان تھے۔ جب سے جامعہ اکل کوا میں دورۂ حدیث کی تعلیم شروع ہوئی آپ کاشیخ الحد یث حضرت مولانا سلیمان شمسیؒ کے ایماء پراستاذحدیث بناکر تقرر کیا گیا،جو آخری سانس تک قائم رہا،حضرت مرحوم مسند ِحدیث پر تشریف فرماہو کر ۱۴؍ سال تک درس حدیث دیتے رہے۔ ہر شخص میں اللہ تعالیٰ نے کچھ خوبیاں رکھی ہیں ،اصول کے تحت حضرت مولانا بھی کئی خوبیوں کے مالک تھے، ان خوبیوں میں سے ایک خوبی اپنے فرائض و ذمہ داریو ں کی کماحقہ ٗادائیگی ہے،آپ کو جو بھی ذمہ داری سونپی جاتی آپ اسے بحسن وخوبی انجام دیتے تھے، چا ہے وہ امتحانات کی ذمہ داری ہویا درسی ذمہ داری ہو یا طلباء کی نظروں میں حاضر ی ہو،یاپھرکسی جگہ تقریر کی ذمہ داری ہو،آپ بہترسے بہترطریقے اورپابندیٔ و قت اور فراخ دلی و خوش دلی کے ساتھ انجام دیتے تھے۔کسی بھی شخص کی زندگی میں یہ ایک اہم خوبی شمار کی جاسکتی ہے کہ اس کے اندر احساس ِذمہ داری وفرض شناسی ہے،اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس خوبی سے مالامال فرمائیں ۔ آمین! حضرت مرحوم کی ذات پُرفیض اورمستفید کرنے والی تھی،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں جہاں علم سے وابستہ لوگوں کو علم کی بڑھوتری کی دعاکاحکم دیاگیا ہے وہیں علم نافع کے سوال کی بھی تلقین کی گئی ۔ جیسا کہ بندہ دعا کر تا ہے أللہم إنی أ سئلک علمانافعاکہ اے اللہ میں آپ سے علم نافع کا سوال کرتا ہوں ۔حضر ت مرحوم اپنی درسی