قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ایک بول دریائے شفقت کے پانی سے لبریز تھا، آپؒ کے تلامذہ میں سے ہر تلمیذ یہ تصور کرتا تھا کہ حضرت کا مقرب ترین اور رازدار میں ہی ہوں ، ہر ایک کو’’ بیٹے‘‘ کے ایسے البیلے انداز میں خطاب فرماتے کہ مخاطب محسوس کرتا کہ اس جگہ’’ مفکر وقت، علامہ، خادم القرآن ‘‘ کے سارے القاب آپ کے شفقت بھرے خطاب کے سامنے ہیچ اور کمتر ہیں ۔ آہ!! اب یہ کان ترستے رہ جائیں گے خلوتوں اور جلوتوں میں کہ ’’ بیٹے غلام محمد‘‘ تمہاری ذکریٰ کی کیا خبر ہے؟’’بیٹے یوسف،بیٹے ارشد، بیٹے صدیق،بیٹے عبد الرحیم، کب آئے؟’’بیٹے احمد،بیٹے سعید،بیٹے حذیفہ‘‘۔ آہ!ہم یتیم ہوگئے اپنے مشفق کی ایسے شفقت بھرے خطاب سے۔اگر کوئی شاگرد یا غیر شاگرد عالم بطور تقریظ کے کچھ لکھنے کوکہتا تو حضرت اہتمام سے اپنی مصروفیت و ضرورت سمجھ کر اس طرح حوصلہ افزا کلمات تحریر فرماتے کہ کبھی چھوٹوں کو بھی احساسِ برتری ہونے لگتا۔ کوئی عالم کسی نئی کتاب کو حضرت کی خدمت میں ہدیہ پیش کرتا تونہ صرف یہ کہ اس کا مطالعہ فرماتے، بل کہ اس کی افادیت واہمیت کا تذکرہ حسب موقع ومحل کرتے اور ملا قا ت پر اس کتاب پر ایسا جنچا تلا تبصرہ فرماتے کہ مارے مسرت کے مصنف کی بانچھیں کھل جا تیں ۔ ہمارے جامعہ کے استاذجناب مولاناافتخاراحمدصاحب قاسمیؔ سمستی پوریؔ کی تصنیف ’’ باطن کا سفر مذہب اورسائنس کی رہ نمائی میں ‘‘حضرت کی خدمت میں پیش کی گئی تواس پر آپ نے نہ صرف یہ کہ اس کی قدردانی فرمائی،بل کہ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ ’’مولا نا کی کتاب بہت عجیب وغریب ہے،میں نے مطالعہ کے بعد اپنے بیٹے ’’مفتی جیندسلمہ‘‘ کو بھیج دی کہ میں نے توحرف بحرف مطالعہ کر لیا، اب تم بھی اس کا مطالعہ ضرور کرو‘‘۔