قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
حیثیت سے قرآن کا معجزہ دیاجاتاہے جس کااعجاز،فصاحت وبلاغت کاوہ اعلیٰ معیار ہے جس کی وجہ سے کہناپڑاکہ ’’لاتنقضی عجائبہ ولایخلق علیٰ کثرۃ الرد‘‘اورخود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بارے میں فرمایاکہ ’’اعطیت جوامع الکلم‘‘ (مسلم)اور کبھی فرمایا ’’اناافصح العرب‘‘(شرح السنۃ)۔ فصاحت وبلاغت،پرکشش ،پرتاثیرکلام کاجزء لاینفک ہے،جس سے مختصر الفا ظ میں ایک وسیع جہانِ معنی کوسمیٹاجاسکتاہے اورحکیم ارسطو کا قول کس درجہ بجا ہے کہ’’ان تجعل فی المعنی الکثیرکلاماقلیلاوفی القلیل کلاماکثیرا‘‘ اور کسی کایہ قول کیسی حقیقت کی ترجمانی کرتاہے کہ’’البلیغ من اغناک عن التفسیر‘‘۔ ہمارے مدارس ِدینیہ میں جو فنون داخل ِنصاب ہیں ،ان کی ایک کڑی فن بلا غت بھی ہے؛جس کامقصدزبان وادب میں نکھارلانااورخاص کر قرآن وحدیث جواصل مقصودہیں ،ان کی تعبیرات وتمثیلات،استعارات وکنایات کو کھولنااوران کی فہم میں گہرا ئی وگیرائی پیداکرناہے ،عرصہ سے اس فن کی مختلف کتابیں مثلاً:دلائل الاعجاز، المطوّل، مختصر المعانیاورتلخیص المفتاح‘‘ ہمارے نصاب میں شامل ہیں ۔ پھر جب تسہیل کا دور شروع ہوا تو ’’البلاغۃالواضحہ،سفینۃ البلغائاور دروس البلاغۃ‘‘جیسی کتابیں نصابِ جدید میں جگہ پائیں ،ان سب کا مقصد قرآن و حدیث کی بلاغت سمجھنااور سمجھانارہا؛مگرجوں جوں ذوقِ علم متأثرہوتاگیااس اہم فن کو محض عبوری حیثیت سے پڑھا پڑھایا جاتارہا،جس سے اصل مقصد فوت ہوتا گیا ؛بل کہ بسااوقات’’النّا س أعْدائٌ لماجھلوا‘‘ کے بہ موجب اکثریت اس سے وحشت محسوس کرنے لگی اور یہ فن محض ایک رسمی فن ہوکر رہ گیا۔ ضرورت تھی کہ جدید اسلوب ِ نگارش میں اس فن پر کو ئی ایسی کتاب معرضِ وجود میں