قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ہی کو اپنامعبودبنا رکھاہے،اہل ِمغرب نے مادیات میں ترقی کرکے چاندپراپناقبضہ جما لیا لیکن انہیں زمین پر انسان کی طرح چلنا نہ آسکا۔ ’’آفاق وانفس‘‘ میں غوروفکرکرکے مغرب نے ہرقسم کی ظاہری ترقی توکرلی، مگر چوں کہ ان کی فکر ونظر کا محورمادہ ہی میں منحصر رہا؛لہٰذا وہ روح کے عجائبات سے آگاہ نہ ہو سکے اورسارے جہاں کے جائزہ کے باوجوداپنے جہاں سے بے خبررہے،بقول اکبرالٰہ آبا د ی باہمہ علم و آگہی ہائے رے پستی ٔ بشر سارے جہاں کا جائزہ اپنے جہاں سے بے خبر قرآن انسان کو اپنی ذات میں غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ،تاکہ وہ خود کو پہچانے اور پھر اس کی یہ خود شناسی خدا شناسی تک پہونچادے ؛قرآن کا حقیقی اور واقعی نظر یہ یہ ہے ’’وفی أنفسکم أفلا تبصرون‘‘(الذاریات ۲۱)اوراپنی ذات میں کیاتم غور و فکر نہیں کر تے ؟ جب انسان اپنے آپ سے آگاہ ہوجاتا ہے تو اس پر روح کی بلندی کے اسرار کھلنے لگتے ہیں اور پھر اس کے آگے مادی ترقیات کی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ مغرب نے آرائش وزیبائش کے سارے و سا ئل اور جسمانی آسائش کے سارے سامان فراہم کرلئے،لیکن اپنی اور اپنے مالک ِحقیقی کی معرفت سے محرومی کے سبب وہ شدید روحانی خلا،دماغی خلل اور فکری بحران کے شکار ہو گئے۔ انسان جب ’’انفس ‘‘میں غور کرتا ہے تو وہ اپنی ذات کو عجائباتِ قدرت کا مظہر پاتاہے اور اسے اپنے خالق کی قدرت کی ایسی معرفت ہوتی ہے ،جواس خالق ِقدیر سے عشق ومحبت کا محرک بھی بنتی ہے اور اس سے خوف وخشیت کا باعث بھی،اپنے خالق و مالک سے عشق ومحبت اور خوف وخشیت کایہی جذبہ بیدار ہوجاناانسان کے روحانی اور باطنی سفر کی تکمیل ہے ،چناں چہ قرآن موقع بہ موقع آفاقی وانفسی تدبرو تفکر کی دعوت دے