قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ہوتی توچاند کی ضیا پاشی ممکن نہ ہوتی نیز آفتاب کی عظمت کو کون جانتا ؟ اگر دھوپ کی گرمی نہ ہوتی تو چھاؤں کی ٹھنڈک کا کون متلاشی ہوتا ؟اگر پیاس کی شدت نہ ہوتی توسیرابی کی لذت کون محسوس کرتا ؟اگر بھوک کی بے تابی نہ ہوتی تو آسودگی کا مزہ کون لیتا ؟اگر جہل نہ ہوتاتو عالم کاعلم بے فائدہ رہ جاتا۔اگر مرض نہ ہوتاتوطبیب کی حذاقت بے سودرہ جاتی ، اگرغربت نہ ہوتی راہِ ثروت کو کون منہ لگاتا،اگر ضروت نہ ہوتی توغناکاکیا کام رہ جاتا؟ غرض کائنات کی آفاقی دنیاہویاانسان کی انفسی دنیا،مخلوق خواہ حقیرہویا عظیم ، ظاہری ہو یا باطنی ،حسی ہو یا معنوی ،ہر ایک کا نظام ایک دوسرے کے احتیاج پر قائم ہے۔ نہیں ہے چیز نکمی کوئی زمانے میں ٭٭برا نہیں کوئی قدرت کے کار خانے میں مخلوق کی فطرت ہی محتاج ہونے کی ہے اور خالق ہر احتیاج سے پاک ہے ، مخلو ق منگتی ہے اور خالق داتا ،وہ صمد ہے ہر ایک سے بے نیاز ہے،مگر ہرایک کی نیاز اس سے قائم ہے ،وہ ہر ایک کی فریاد سنتا ہے اور ہر ایک کی مراد پوری کرتا ہے ،دنیا دار الاسباب ہے اور دنیا کا خالق مسبب الاسباب ،اس سے مدد مانگے بغیر کوئی بھی کام نہیں ہوسکتا، تد بیر کے ساتھ اس پر توکل ایمان کا تقاضہ ہے ،وہ اپنے بندوں کو عزم کے ساتھ توکل کی تلقین کر تا ہے ،ارشاد ہے ’’اذاعزمت فتوکل علی اللہ ‘‘ (اٰل عمران۱۵۹)انسان مانگنے پر چیں بجیں ہوتا ہے اور وہ نہ مانگنے پر ناراض ہوتا ہے ،اس کی شان سب سے نرالی ہے،وہ کہتاہے’’ادعونب استجب لکم‘‘(غافر۶۰)لہٰذابندہ جب اپنے معبودحقیقی سے دعاء کرتاہے اس سے اپنی ضرورت کاسوال کرتاہے توگویاوہ اپنے معبودکی قدرت مطلقہ کا اعتراف کرتاہے اوراس کے مشکل کشا،حاجت رواہونے پریقین رکھتاہے اوراپنی حکمت ومصلحت کے پیش نظر یا تو بعینہٖ اس کی مانگ پوری کردیتاہے،یاکسی بڑی بلاسے نجات عطاکرتاہے،یااس کی دعا کو آخرت کے لیے ذخیرہ بنادیتاہے،غرض اس کے