قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
مسلم الثبوت رقم طرازہیں کہ زمانۂ قدیم میں فقہ علم حقیقت علم طریقت اور علم شریعت کے مجموعہ کو شامل تھا۔ ’’إن الفقہ في الزمان القدیم متناولًا لعلم الحقیقۃ وھي الالھیات من مباحث الذات والصفات وعلم الطریقۃ وھي المباحث المنجیات والمھلکات و علم الشریعۃالظاہرۃ‘‘ نیز سر خیل ائمہ امام اعظم ابوحنیفہ نے فقہ کی تعریف فرمائی کہ ’’الفقہ معرفۃ النفس مالہاوماعلیھا‘‘ یعنی ان چیزوں کی تعریف جن سے دارین میں نفس کو نفع یا نقصان پہنچے۔ فقہ کی اس جامع تعریف کے ضمن میں عقائد واحکامات سب شامل ہوجاتے ہیں گو یا جو اسلام مسلمان سے مطلوب ہے وہ ہرقول وعمل کا مطابق شریعت ہونا ہے اور یہی جمیع اولاد آدم کے لئے قانون حیات ہے۔ اس فقہ کی کچھ اساس اور بنیادیں ہیں جس کی روشنی میں علماء سابقین اور مجتہد ین نے مسائل کو متفرع کیا ہے جو ر فتار زمانہ وتغیر ات احوال کے پیش نظر جدید اورکرنٹ مسائل میں بھی رہنماء اصول ہیں ، ان اصول سازی وضابطہ بیانی کا ماخذ اول قرآن مقدس ہی ہے اس لئے اصولیین کا یہ طرز نہ صر ف قابل تحسین بلکہ قابل تقلید ہے کہ انہو ں نے جو کچھ بیان کیا یا کرتے ہیں وہ ماخذ اصلی قرآن وسنت کی روشنی میں ہی کرتے ہیں ۔ اگر آیات قرآنی کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس نتیجہ پر پہو نچنا آسان ہے کہ اس کا ایک ایک جز اپنے اندر اصل کی حیثیت رکھتا ہے تاہم ’’مشتے نمونہ از خر وارے‘‘ کے طور پر اوامر و نواہی کے باب میں قرآن نے خبر دی کہ’’ماجعل اللہ علیکم في الدین من حرج ‘‘(الحج۷۸)اور’’یرید اللہ بکم الیسر و لا یرید بکم العسر ‘‘ (البقرہ۱۸۵)