احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
آپ جس آیت کی تفسیر پڑھ رہے ہیں۔ یہ آیت اور اس کے ماقبل کے رکوع کی آیت:’’و یکلم الناس فی المھد وکھلا من الصلحین‘‘ نزول مسیح علیہ السلام کی صریح دلیل ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قبل فرشتہ نے منجانب اﷲ جناب مریم صدیقہ کو بطور بشارت یہ خبر دی کہ تمہارے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا جو :’’یکلم الناس فی المھد وکھلا ومن الصلحین (آل عمران:۴۶)‘‘ کلام کرے گا لوگوں سے بچپن کی عمر میں اور کہو لت کی عمر میں نیز وہ صالحین سے ہوگا۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلام مہدوکہولت کو اﷲ عزوجل نے منجملہ انعامات کے ذکر کیا ہے۔ جو دونوں معجزہ کے رنگ میں ہیں۔ کلام مہد تو اس لئے معجزہ ہے کہ ایسے بچے کو تو خود اپنے وجود کی سدھ بدھ نہیں ہوتی۔چہ جائیکہ وہ اپنی والدہ ماجدہ سے الزام رفع کرے اور اپنے نبی صاحب کتاب ہونے کا دعویٰ کرے۔ باقی رہا کہولت میں کلام کرنا۔ سو بظاہر یہ کوئی خارق عادت بات نہیں۔ کیونکہ اس عمر میں ہر زندہ انسان کلام کرتا ہے۔ مگر جب قرآن مجید کی دیگر آیات و احادیث پر نظر ڈالی جائے تو حضرت عیسٰی علیہ السلام کا آسمان پر جانا پھر مدت مدید کے بعد بغیر کسی ظاہری تغیر کے اسی حالت میں نازل ہونا خدمت دین کرنا ثابت و عیاں ہے۔ پس اس آیت میں اسی عمر کہولت کا ذکر ہے جو فی الواقع معجزہ ہے۔ (تفسیر فتح البیان ج۲ ص۲۳۸)میں ہے :’’وفی الایۃ بشارۃ لمریم بانہ یبقی حتیٰ یکتہل وفیہ انہ یتغیرمن حال الی حال ولوکان الہا لم یدخل علیہ التغییر ففیہ ردعلی النصاریٰ وقال الحسن ابن الفضل یکلم الناس کھلا بعد نزولہ من السماء وفیہ نص علی انہ سینزل من السماء الی الارض‘‘ یعنی اس آیت پر مریم علیہا السلام کے لئے بشارت ہے کہ ان کا بیٹا عیسیٰ زندہ رہے گا۔ یہاں تک کہ بڑھاپے کی عمر میں لوگوں سے کلام کرے گا اور اس میںنصاریٰ کا بھی رد ہے جو ان کو خدا مانتے ہیں کہ دیکھو عیسیٰ علیہ السلام میں تغیر ہوگا۔ ایک حال سے یعنی جوانی سے دوسرے حال یعنی بڑھاپے میںداخل ہوں گے۔اگر وہ خدا ہوتے تو یہ تغیر نہ ہوتا۔ یعنی کبھی جوان اور کبھی بوڑھے۔ علامہ حسن بن فضلؒ نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اترنے کے بعد عمر کہولت میں لوگوں سے کلام کریں گے۔ یہ آیت نص ہے۔ اس بات پر کہ وہ آسمان سے زمین کی طرف ضرور اتریں گے۔ نیز اس آیت میں رد ہے مرزائیوں کا جو نزول مسیح علیہ السلام کے منکر ہیں۔ اسی طرح علامہ ابن جریرؒ جو