احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
لہٰذا مناسب ہے کہ ہم مسئلہ حیات مسیح کو کتاب و سنت سے ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ قانون قدرت کی بھی تھوڑی سی تشریح کر دیں۔ واضح باد کہ نیچر کے ماننے والے منطقی اور فلسفی اور اکثر مرزائی حضرات عوام کو یہ مغالطہ دیتے ہیں کہ فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ آسمان پر پہنچ سکے۔ وہ کہتے ہیں یہ بات بدیہی ہے اور مصنوعات وموجودات پر نظر کرنے سے چاروں طرف یہی نظر آتا ہے کہ قدرت نے جس طرح جس کا ہونا بنا دیابغیر خطا کے اسی طرح ہوتا اور اسی طرح پر ہوگا اور اصول بھی وہی سچے ہیں۔ جو اس کے مطابق ہوں۔ میں کہتا ہوں کہ یہ سب ظاہری دھوکہ و فریب ہے۔ اسی دھوکہ کی وجہ سے یہ لوگ نبی علیہ السلام کی معراج جسمانی کے بھی منکر ہیں۔ اگر ازروئے فلسفہ انسان کا آسمان پر جانا محال ہے۔ تو کیا خدا کے لئے بھی محال ہے کہ وہ جس کو چاہے نہ لے جا سکے؟ پھر ان اﷲ علی کل شئی قدیر کا معنی کیا ہوا؟ حقیقت یہ ہے کہ اذاجاء نہر اﷲ بطل نہر معقل۔ اﷲ کی شریعت کے آگے ہماری ناقص عقلیں باطل ہیں۔ اس سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قدرت الٰہی کے طریقے اسی حد تک محدود ہیں جو ہمارے مشاہدہ میں آ چکے ہیں اور جو ہماری ناقص سمجھ اور مشاہدہ سے باہر ہے۔ وہ قانون قدرت سے بھی باہر ہے۔ قوانین قدرتیہ غیر متناہی و غیر محدود ہیں۔ ہمارا یہ اصول ہونا چاہئے کہ ہر ایک نئی بات جو ظہور پذیر ہو، پہلے ہی اپنی عقل سے بالاتر دیکھ کر اس کورد نہ کریں۔ بلکہ اس کے ثبوت و عدم ثبوت کا حال کتاب و سنت سے معلوم کریں۔ اگر ثابت ہو تو قانون قدرت کی فہرست میں اسے بھی داخل کرلیں۔ ورنہ کہہ دیں کہ ثابت نہیں۔ ثابت شدہ امر کے متعلق ہم یہ کہنے کے ہرگز مجاز نہیں کہ یہ قانون قدرت سے باہر ہے۔ قانون قدرت سے کسی چیز کو خارج سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایک دائرہ کی طرح خدا ئے تعالیٰ کے تمام قوانین پر محیط ہوں اور ہمارا ایک فکر اس بات پر احاطہ تام کرے کہ اﷲ عزوجل نے روز ازل سے آج تک کیا کیا قدرتیں ظاہر کیں اورآئندہ اپنے ابدی زمانہ میں کیا کیا ظاہر کرے گا اور جدید قدرتوں کے اظہار پر قادر ہوگا یا نہیں۔ اگر نہیں تو کیا نعوذ باﷲ وہ عاجز آئے گا یا کسی دوسرے قاہر نے اس پر جبر کیا ہوگا۔ بہر حال اپنے ایک محدود زمانے کے محدود تجارب کو پورا پورا قانون قدرت خیال کر لینا اور اس پر غیر متناہی سلسلہ قدرت کو ختم کر دینا، سراسر جنون، دیوانگی اور کوتاہ نظری ہے۔ آج کل کے بعض فلسفی