احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
غرضیکہ توجہ الیٰ اﷲ خالصتاً اﷲ والوں ہی کا حصہ ہے۔ لیکن چونکہ تخلیق بشر میں یہ مادہ ودیعت ہے کہ وہ اپنے خالق کی طرف متوجہ ہو۔ ہر ایک انسان میںخواہ وہ کسی ملک کا رہنے والا ہو، خواہ وہ کسی قوم کا ہو، خواہ کسی مذہب اور ملت کا پیرو ہو، یہ مادہ عبدیت ایک نہ ایک وقت اس کے دل میں موجزن ہوتا ہے اوراس کے اظہار کا اصلی وقت وہ ہے جب انسان کے دل میں جلب منفعت یا دفع مضرت کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ جب تکلیف سے بچنے کا اور آرام پانے کا خیال انسان کے دل میں طبعی اسباب سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کو اپنے سے ایک بڑی ہستی کی تلاش ہوتی ہے اور وہ خود بخود اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اس سے ڈرتا ہے کہ مجھے تکلیف نہ دے۔ اس کے آگے روتا اور گڑگڑاتا ہے کہ مجھے تکلیف سے بچالے اور آرام دے۔ اس کی ناراضی سے بچنے کے اور اس کو خوش کرنے کے وسائل تلاش کرتا ہے اوران کو عمل میں لاتا ہے۔ یہی عبادت کا موضوع ہے اور یہ ہر ایک انسان کے دل میں ایک نہ ایک وقت خود بخود طبعی اسباب سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن چونکہ انسان کی عقل کامل نہیں ہے وہ بسا اوقات ا س بڑی ہستی کے قرار دینے میں جو فی الواقع دفع مضرت یا منفعت پہنچانے کی قدرت رکھتی ہے غلطی کرتا ہے اور بہت تھوڑے ایسے ہیں جو خود بخود پکار اٹھتے ہیں۔ ’’انی وجھت وجھی للذی فطر السموت والارض حنیفا وما انا من المشرکین (الانعام:۷۹)‘‘{میں نے تو ایک ہی کا ہو کر اپنا رخ اسی ذات پاک کی طرف کر لیا ہے جس نے آسمان اور زمین کو بنایا اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔}اس واسطے اس منبع رحمت کو اپنے مرسلین بھیجنے کی ضرورت ہوئی کہ انسان کو اس غلطی سے بچا لیں اور اس سچے اور حقیقی معبود کی طرف جھکا دیں۔ جودراصل اس عزت کا مستحق ہے۔ غرض کہ ایسے وقت میں اس بڑی ہستی کی طرف متوجہ ہونا فطرت انسانی کے بالکل موافق ہے اور اسی خیال نے ہر ایک انسان کو معبود کی طرف توجہ دلائی ہے۔ کسی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خد ا مان لینے میں اور ان کے کفارہ پر ایمان لانے میں نجات سمجھی ہے۔ کسی نے گوماتاکی رکھیا کو ذریعہ نجات جانا ہے۔ کسی نے ویدودیا ہی کو بچاؤ سمجھا۔ کسی نے خدائے وحدہ لاشریک لہ کے آگے سر جھکانا دفع مضرت و جلب منفعت کے واسطے ضروری سمجھا۔ مگر تعجب ہے کہ مرز ا قادیانی نے سرے سے اس خیال ہی مخالفت کی ہے جو کہ قانون قدرت کی مخالف ہے اور سب کو ایک ہی لاٹھی ہانکا ہے۔ بلکہ اوروں کا تو صر ف ذکر ہی کر کے چھوڑ