احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
سکتا۔ مگر آپ کو یہ بھی یاد ہونا چاہئے کہ اس آیت سے مستثنیٰ کون ہیں ابن مریم۔ اب دیکھنا کہ ابن مریم علیہ السلام پہلے بھی کسی قانون سے مستثنیٰ کئے گئے ہیں یا نہیں۔ اگر کئے جانا ثابت ہو جائے پھر لامحالہ یہ کہنا پڑے گا کہ آپ اس قانون سے بھی بالضرور باہر ہیں۔ مثلاً قانون الٰہی پیش کرتا ہوں، ملاحظہ فرمائیں۔ ’’انا خلقنا الانسان من نطفۃ امشاج نبتلیہ فجعلنٰہ سمیعا بصیرا (الدہر:۲)‘‘ {تحقیق پیداکیا ہم نے انسان کو نطفہ ملے ہوئے سے پھر کیا ہم نے اس کو سننے والا اور دیکھنے والا۔}آگے چل کر اﷲ تعالیٰ اس کی پیدائش کا ذریعہ مفصل الفاظ میں بیان فرماتا ہے: ’’یخرج من بین الصلب والترائب (الطارق:۷)‘‘{نکلتا ہے یعنی نطفہ باپ کی پیٹھ سے اور چھاتیوں ماں کی سے۔} یہ کتنا بڑا قانون انسان کی پیدائش کا۔ مگر ابن مریم علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے۔ آپ اس قانون سے الگ ہیں۔ آپ ہی الگ نہیں بلکہ پیدائشی بہرے، اندھے بھی مستثنیٰ ہیں۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’کیا ہم نے سننے والا اور دیکھنے والا ۔‘‘ دوسرا قانون الٰہی دیکھئے۔ الجواب دوئم محمدی ’’ولقد ارسلنا رسلا من قبلک وجعلنا لھم ازواجا وذریۃ (الرعد:۳۸)‘‘ {اور البتہ تحقیق بھیجے ہم نے رسول پہلے تجھ سے اور کیں ہم نے واسطے ان کے بیویاں اوراولاد }آپ یعنی ابن مریم علیہ السلام اس قانون سے باہر ہیں۔ یعنی تمہارا صیغہ جمع ٹوٹ گیا ہے۔اس لئے کہ مرزا قادیانی نے بھی تصدیق کر دی۔ چنانچہ اپنے رسالہ (تریاق القلوب ص۹۹، خزائن ج۱۵ ص۳۶۳ ملخص) میں راقم ہیں۔ ’’ابن مریم کی نہ کوئی بیوی تھی اور نہ اولاد۔‘‘ لہٰذا ابن مریم علیہ السلام اس قانون سے مستثنیٰ ہیں۔ اگر کوئی مرزائی معتبر احادیث یا تفاسیر سے ثابت کر دے کہ ابن مریم علیہ السلام نے نکاح کیا، اولاد ہوئی۔ خدا کی قسم پچاس روپے بطور انعام فی الفور پیش کروں گا۔ نفی کے لئے ہمارے پاس کافی دلائل ہیں کہ آپ نے نہ تو نکاح کیا اور نہ اولاد ہوئی۔ مرزائیو! ذرا سوچو اس بات کو کہ ان دونوں صیغوں سے مستثنیٰ ہیں۔جیسے یہاں اس قانون سے باہر ہیں۔ وہاں بھی انشاء اﷲ باہر ہوں گے۔ اب آؤ، آپ کے سامنے ایک حدیث شریف پیش کرتا ہوں۔