احتساب قادیانیت جلد نمبر 53 |
|
اس لئے ہی اﷲ تعالیٰ نے کپڑوں کے لئے ’’انزلنا‘‘ لفظ استعمال کیا۔ معلوم ہوا کہ نازل کا لفظ آسمان سے کوئی چیز اترنے پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ ورنہ دوسری اشیاء پر ہرگز نہیں۔ پس جس طرح پانی آسمان سے اترا اور اس کے سبب سے کھیتیاں پیدا ہوئیں۔ اس لئے کپڑوں کے متعلق اﷲ تعالیٰ نے ’’انزلنا من السماء مائ‘‘ فرمایا۔ جیسے پانی کے ’’انزل‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ اسی طرح مسیح کے لئے بھی ’’فینزل‘‘ رسول خداﷺ نے فرمایاہے۔ الجواب دوئم عقلی تمہاری مثال تو ایسی ہے کہ کہیں کسی بے وقوف کو سینما دیکھنے کا شوق پیدا ہوا اور ٹکٹ خریدا۔ اندر جا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ چنانچہ جب کھیل شروع ہوا تو سامنے چادر پر دیکھ دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ واہ! یہ چادر بڑی قیمتی ہوگی۔ کیا عجیب کھیل اس پر پیدا ہوتے ہیں۔ اس نے سمجھا یہ سب کاریگریاں اس چادر میں بھری ہوئی ہیں۔ حتیٰ کہ ریل گاڑی ہوائی جہاز وغیرہ وغیرہ چلتے جب اس کو نظر آئے تو بڑے تعجب میں واہ،واہ کرتے کھیل ختم ہوگیا۔ اس کا ایمان اس بات پرمضبوط ہو گیا کہ یہ چادر ہی کے کرشمے ہیں۔ بڑی قیمتی ہوگی۔ باہر آیا تو کسی تعلیم یافتہ سے ملاقات ہوئی۔ اس کے سامنے بھی اس بے وقوف نے چادر کے متعلق ذکر کیا کہ بابو جی وہ چادر بڑی قیمت سے آتی ہوگی۔ انہوں نے ہنس کر جواب دیا اے میاں! اس چادر میں کیا رکھا ہے؟ وہ تو پیچھے ایک مشین ہوتی ہے۔ جس کے ذریعے عکس اس چادر پر پڑتے ہیں۔ اگر وہاں سے بجلی کے ذریعہ عکس نہ آئیں تو چادر کوئی کھیل دکھا نہیں سکتی۔ تمہاری مثال بھی اس بے وقوف جیسی ہے کہ کپڑا زمین پر تیار ہوتا ہے۔ جولاہے یا کارخانے بناتے ہیں۔ اگر آسمان سے پانی نازل نہ ہو ۔ یہ زمین مانند چادر کے کچھ پیدا نہیں کر سکتی۔ اوپر سے پانی نازل ہوتا ہے۔ پھر اس کے بذریعہ ہر چیز پیدا ہوکر ہمارے کام آتی ہے۔ اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ’’انزلنا من السماء مائ‘‘ فرمایا۔ معلوم ہوا کہ نزول کا معنی آسمان سے اترنے کے لئے ہی استعمال کیا جاتاہے۔ الجواب سوئم مرزائیو!کیا آپ الفاظ نزول کو آسمان سے اترنے کے لئے استعمال نہیںکرتے؟ چنانچہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اندر ارشاد فرمایا، ملاحظہ ہو:’’شہر رمضان الذی انزل فیہ القران ھدی للناس(البقرۃ:۱۸۵)‘‘ دوسری جگہ ’’انا انزلناہ فی لیلۃ القدر (القدر:۱)‘‘یعنی رمضان کی رات کو میں نے اس قرآن مجید کو لوح محفوظ سے پہلے آسمان پر اتارا