قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
سلسلے اورمسلک سے اپنی و ابستگی اوروفاداری کاثبو ت دینااوراپنی استعد ا دکے بقدرابرا ہیمی جذبات اورکیفیا ت میں حصہ لینااور اپنے کو ان کے رنگ میں رنگ دینا ،یہ حج ہے۔ بالفا ظ دیگر یوں بھی کہاجاسکتاہے کہ جب صفا ت ِبا ری تعالیٰ کو دو حصو ں میں تقسیم کیا جا ئے ایک ہے صفا ت جلا لیہ: قہا ر ہو نا ، جبا ر ہو نا ، احکم الحا کمین ہو نا ، تو دوسری طر ف ہے صفا تِ جما لیہ ،یعنی رحمن ہو نا ، رحیم ہونا ، ستا رہونا ، غفا رہونا ، رزا ق ہونا ، تو گو یا اللہ کی صفا تِ جلا لی کے پیشِ نظر’’ معبو د یت ‘‘حقیقی ہے ، اور اللہ کی شا ن صفا ت ِجما لی کے پیش نظر’’ محبو بیت‘‘ حقیقی ہے۔ حا کما نہ شا ن کا مقتضیٰ یہ ہے کہ بند ہ ہر طرح سے اس کے سا منے عا جز و مجبو ر بن کر اپنی عبد یت کا اظہا ر معبو د حقیقی کے حضو ر ادب و نیاز مند ی کی تصویربن کرکر تارہے ان ارکا ن خمسہ میں یہی رنگ نمازمیں غالب ہے اور صفا تِ جما ل یعنی شان محبو بیت کا تقاضاہے کہ بند وں کاتعلق اللہ کے ساتھ عشق و محبت کا ہو اور بند ے در بارِ الٰہی میں اس کی چا ہت و محبت اور اس پر فدا ئیت کا اظہا ر کر یں ۔ چنا ں چہ رو ز ہ میں بھی کسی قد ر یہ رنگ ہے کہ بند ہ خد ا کے ایک حکم پر اشیاء ثلاثہ (اکل و شرب وبعال)کو چھو ڑ دیتا ہے ، اور نفسا نی خو ا ہشا ت سے منہ مو ڑ لیتا ہے ، جیسا کہ عشق و محبت کے منز لو ں میں ہو تا ہے ، مگر حج اس کی پو ری پوری غما ز ی کر تا ہے ، بند ہ اس میں مکمل طو ر پر اپنے عشق و محبت کا اظہا ر کر تا ہے کہ غیر سلے ہو ئے کفن نما لبا س پہننا، ننگے سر رہنا ، جسم کی صفا ئی کا کو ئی خا ص لحا ظ نہ ہو نا ، محبو ب کی ذا ت میں کھو جا نا اور چیخ چیخ کر لبیک کہنا ، اس کے گھر کا طو ا ف کرنا ، حجر اسو د کو چو منا ، صفا مر و ہ کے چکر لگایا کرنا ، پھر مکہ سے با ہر عر فا ت و مز دلفہ کے صحرا ئوں میں دیوا نو ں کی طر ح گھو منا اور آ ہ وزا ی کرنا، پھر بے چینی کے عا لم میں مکہ آ نا۔ محبو ب کے نا م پر جا نو ر ذبح کر نا یہ سارے اعما ل دیو ا نہ پن اور محبو ب سے اعلیٰ درجہ کے عشق و محبت کا ثبو ت دیتے ہیں ۔ اللہ حجا ج کو محبو ب کے در کی عاشقا نہ حاضر ی نصیب فر ما کر کیفیت حج سے لطف اند و ز کر ے۔ ٭٭٭٭٭