قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
عزیزم مولانا مجتبیٰ لولات شیخ الحدیث، ہدایت الاسلام عالی پور، پٹنہ میں تربیت قضاء کے طالبِ علم تھے، اس دور ان علی گڑھ سمینار میں علماء کی ایک مجلس میں قاضی صاحبؒ نے ایک حدیث کی تخریج کے متعلق استفسار فرمایا، جب مولانا موصوف نے اس کا مخرج متعین کر کے بتلادیاکہ ابن ماجہ کی ہے تو ایسے تحسینی اور حوصلہ افزاء کلمات کہے کہ تم ہی سے امید تھی کہ تم اس عقدہ کو حل کروگے، بہر حال علمی ذوق کے ساتھ وسعتِ ظرفی سے بھی آپ کو وافر حصہ ملاتھا۔ موصوف کی رحلت پر جامعہ مظہر سعادت کے بانی نے بہت ہی جامع تبصرہ فرما تے ہوئے فرمایا کہ قاضی صاحب ایک دو صدی پہلے اس دنیا میں ہوتے توآج کتب فقہیہ میں ان کے اقوال ملتے۔ ان سب کمالات کے ساتھ قاضی صاحبؒ کے مزاج میں جو استغناء تھا وہ بھی قابل ذکر ہے،جب قاضی صاحبؒ کی ریڑھ کی ہڈی کا علاج شروع ہواتو آپ کے جاں نثاروں نے آپ کو علاج ومعالجہ کے طبی اعلیٰ جانچ کے لیے امریکہ روانہ کیا تو معالجین نے خون کی جانچ کے بعد یہ تأثر دیاکہ مریض صحت یاب تو ہو سکتاہے؛ مگر مصارف کثیر ہوں گے، قاضی صاحبؒ کے متعلقین نے ممکنہ مصارف کی ذمہ داری قبول کی توقاضی صاحب نے تخمینہ دریافت کیا،جب معالجین نے دوکروڑ بتلایا توقاضی صاحب نے یہ کہہ کر کہ زندگی اور موت اللہ کے قبضہ میں ہے،ایک مجاہد الاسلام پر یہ زرِکثیر خرچ کرو اس سے بہتریہ ہے کہ غریب،مفلس کے خاندان کی ترقی اور خوش حالی میں یہ خرچ کیا جاوے، چناں چہ آپ نے اس علاج سے رو گردانی اختیار کر کے دہلی کے علاج پر اکتفاء کیا۔ قاضی صاحبؒ عرب علماء میں بے حد مقبول تھے، لیکن عرب دنیا سے آپ کا تعلق صرف علمی اورملی خدمات کے لیے رہا، عربی پر ایسی قادر الکلامی تھی کہ آپ یکا یک