قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کا خزینہ کہا جاسکتا ہے،یہ ان کی تربیت کاہی اثر ہے،کہ فلاح دارین میں یہ ذوق بالخصو ص پروان چڑھا،اساتذۂ کرام میں حضرت الاستاذمولاناذوالفقارصاحب دامت برکاتہم اوربرادرِ کبیر حضرت مفتی عبداللہ صاحب رویدروی کے ذوق لطیف نے مزید مہمیزکا کام انجام دیاان مذکورہ بالاشخصیات کی مخلصانہ توجہات کانتیجہ کہ رفیق محترم صالحیت و صلا حیت کا سنگم مظہر سعادت کے قابل ومقبول استاذ جناب مولانااحمدصاحب ٹنکاروی حفظہ اللہ نے ایک ایسی کتاب تیار کی جو بغور دیکھا جائے تو ہرعامی کے لیے رکھنا ضروری،ہر عالم کے لیے جزء لاینفک،ہرمسافر ومقیم کے لیے سامان راحت جس میں معلومات مختصر مگرہر زاویہ اور گوشہ کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے جامعیت ومانعیت کاایساگلدستہ جو دریابکوزہ کا صحیح مصداق ہے، اللہ تعالیٰ مؤلف اور مصنف کو جن کی اولین تصنیف ہے۔ خدا کرے یہ خشت ِاول دنیا ئے تصنیف وتالیف میں وہ مقبولیت حاصل کر ے جس کے نتیجہ میں مصنف کو مزید جدیدوضروری مضامین پر قلم اٹھانے کا حوصلہ ملے اور ان کی قلمی کاوش طویل عرصہ تک لوگوں کی رہنمائی و رہبری کا کام کرتی رہے بہرحال مصنف کی یہ کتاب کتنی مفید،کتنی معلومات افزا ء، کیسی جنرل معلومات اور کیسا انسائیکلوپیڈیا ہے ، اس کا علم تو قاری پڑھنے اور استعمال کرنے سے محسوس کرے گا اور خود فیصلہ کرے گا۔ کتب خانوں کی درودیوارجس قسم کی کمی کا زبان حال سے شکوہ کرتی تھی یہ کتا ب اس کی تلافی کرے گی،میں مصنف کواپنے قلب کی گہرائی سے مبارک باد دیتے ہوئے دعاء کرتاہوں کہ اللہ پاک اس کتاب کو مقبول عام وخاص بناکر اس کوخیرالناس من ینفع النا س کا مصداق بنائے باقی سچ یہ ہے کہ ’’عطرآنست کہ خود ببویدنہ کہ عطاربگوید‘‘۔والسلام ۱۰؍شعبان المعظم ۱۴۳۳ھ م ۱؍جولائی ۲۰۱۲ء