قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
کروادی،اورزبانِ حال سے نصیحت آموزی کاموقع فراہم کیا،بول اٹھے کہ الٰہی!تیرا کتنااحسان و کرم ہے کہ تو نے مجھے پیروں کی نعمت سے نوازا ہے۔ اسی طرح ایک خدا شناس،عارفِ وقت ایک پگڈنڈی سے گذر فرما رہے تھے کہ ایک کتے نے آپ کاراستہ روک لیا،چاروناچاربزرگ موصوف کونیچے اترکرراستہ طے کرناپڑا،جس کی وجہ سے اُن کے اجلے اجلے کپڑوں پر کیچڑ نے ڈیرا جمالیا،طبع نازک پر ناگواری ہوئی ،لیکن اللہ والے کو الہام ہواکہ کتا یہ نصیحت کررہا ہے کہ کپڑے پر لگاہواکیچڑ تو پانی یا کسی اور سیال شئ سے صاف ہوسکتا ہے ،تمہیں راستہ دے دیتا تو اس سے دل پرجو گندگی لگتی اس کا علاج بہت مشکل تھا ،گویا یہ بھی ایک نصیحت ِحالی تھی۔ ٹھیک اسی طرح کتاب وسنت کے حاملین وعاملین کی زبان پر اللہ تبارک و تعا لیٰ نور ِنصوص کے طفیل ایسے حکمت آمیز کلمات بل کہ حکمت کے چشمے جاری فرما دیتے ہیں کہ بسااوقات متکلم خود اپنی تعبیرات وملفوظات سے محو حیرت ہوجاتاہے،اور ان کے متبعین و اخلاف اپنے اسلاف کے ان ملفوظات کو مزہ لے لے کر ،محظوظ ہو ہو کر ،مجلسوں اور محفلو ں میں ،عبارتوں اورمضمونوں میں نقل کرتے ہیں ،جیسے ہمارے اکابرین ِدیوبندمیں فقیہ وقت محدثِ دوراں حضرت گنگوہی ؒکے پاس سے ان کے ایک معتقدرخصت لینے لگے،اور الو داعی نصیحت کے خواہاں ہوئے،توآپ ؒ کی لسان ِپُرتاثیرسے یہ ملفوظ صادر ہوا کہ’’ کسی سے،کسی وقت،کسی حال میں کوئی امید نہ رکھو ‘‘اگر کوئی غور کرے تو یہ ملفوظ’’دریابکوز ہ ‘ ‘ کا مصداق ِواقعی ہے۔ اسی طرح راقم الحروف ،نادم ،آثم ایک مرتبہ مادر علمی فلاح دارین ترکیسر کے دارالضیوف میں مفکر ِاسلام،حضرت مولاناسیدابوالحسن حسنی الندویؒ کی خدمت میں اپنی ’’مذکرۂ نصائح ‘‘لے کر حاضر ہوا ،اور کتابتِ نصیحت کی درخواست کی ،تو بڑی بشا شت