قطرہ قطرہ سمندر بنام نگارشات فلاحی |
ختلف مو |
|
ان کی فقہ کوتختۂ مشق بنایا تواس دورکے مقبول جریدہ ’’البیان‘‘ نے حضرت شمسیؒ کو پیش کش کی، لہٰذاحضرت شمسیؒ نے شمشیری قلم کے ذریعہ امام اعظمؒ اوران کی فقہ کے تقدس کوامت کے سامنے مثبت اورمدلل اندازمیں پیش کیا،جس کو عوام وخواص نے بہت ہی زیادہ پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھااوردرجۂ مقبولیت حاصل کی، حضرت شمسیؒتواس دنیا میں نہ رہے مگر ان کے صلبی اورعلمی ورثاء کی ایک طویل قطار ہے جوسینہ بہ سینہ یانسل درنسل امت تک ان کے فیض کوپہونچاتی رہے گی،جوحضرت کے لئے ذخیرۂ آخرت اوررفع درجات کاذریعہ بھی ہوگی۔ اسے حسن اتفاق کہئے کہ جامعہ کے محنتی اورمخلص استاذ جن کو حضرت شمسیؒ کی صلبی اور علمی ہر دوطرح کی وراثت مقدرمیں آئی جنہوں نے اپنے والدبزرگوار کے اس علمی قیمتی اثاثہ کوجومختلف جرائد وشماروں میں منتشرتھے اورتشنۂ تکمیل تھے ان کو ایک لڑی میں پروکر ایک قیمتی سنہری ہار کی شکل دینے کی سعی ٔ جمیل کی ہے،جمالؔ ان کے نام کاجزولاینفک بن چکاہے،یقینا اللہ تعالیٰ کی ذات سے امیدہے کہ حق جل مجدہٗ حضرت شمسی ؒکے اس فیض سے امت کوبافیض فرماتارہے گااوران کے وہ تلامذہ جو فضلائے جامعہ اکل کوااورفضلائے محمدیہ کی شکل میں دین متین کاکام انجام دے رہے ہیں سب کے محاسن کااجروثواب حضرت مرحومؒ کے نامۂ اعمال میں پہنچتارہے گا،جیسے جامعہ کے شعبۂ حفظ کے ذمہ دار قاری نثاراحمدصاحب محمدی،مولانا عبدالوہاب صاحب ناظم جامعہ ابوہریرہؓمولاناعبداللہ مولاداد،مولاناشیرمحمدصاحب مکرانی، مولانامحمدحنیف صاحب وستانوی،مولانافاروق صاحب وستانوی،مولاناسعیدصاحب وستانو ی، مولانا نعیم صاحب رنجنی وغیرہ سے اللہ تعالیٰ خوب کام لے رہاہے۔ میں دوبارہ مضمون کی طوالت پر معذرت چاہتے ہوئے کہ میرے محسن جس نے ہر ہر قدم پرمیری حوصلہ افزائی کی ان کی کتاب پرکچھ لکھنے کے بجائے مصنف پرہی لکھتا چلا گیا ۔ کیا کریں مقولہ مشہورہے کہ’’الانسان عبدالاحسان‘‘ ۔۔۔فقط والسلام