تعلقات کو چھوڑ کر گھر بىٹھ جائىں گے تو عوام کا تمدن اور معاشرہ بىع وشراء وغىرہا ىہ کىسے صحىح ہوں گے۔ حضرات صحابہ کا غالباً ىہى رنگ تھا جو ىہ ہىچ مدان (احقر) عرض کر رہا ہے۔ صحىح تعلقات کا ہونا تو مىرے نزدىک عبادت ہے۔ اﷲتعالىٰ سے تعلق ہوجانے کے بعد پھر کسى سرزمىن پر رہے انشاءاﷲکسى قسم کا ضرر نہ ہوگا اور جب انکو منظور ہوگا توکّل متعارف بھى عطا فرما دىں گے جس کى حقىقت ترکِ اسباب ہے۔
مگر مجھے ىہى پسند ہے کہ اسباب بھى ہوں اور توکّل بھى جىسے حضرت سلىمان نے حق تعالىٰ سےىہ دعا کى تھى کہ اے اﷲ! مجھے اىسى سلطنت عطا فرما کہ مىرے بعد کسى کو اىسى سلطنت نہ ملے۔ اس مىں بظاہر توکّل اور تواضع کى مخالفت معلوم ہوتى ہے مگر حاشا و کلا ىہ عىن تواضع ہے بلکہ تکمىل تواضع جب ہو سکتى ہے کہ کمال اور اسباب على وجہ الکمال حاصل ہوں اسى وجہ سے کسى نے کہا ہے ؏
گدا گر تواضع کند خوائے اوست
ہاں!برادرانہ اور رسمى تعلقات کو منقطع کر دىنا چاہئے جىسا کہ حضرت نے منقطع کر دىا تھا۔ اس بارے مىں مىرى ىہ عرض ہے رسمى تعلقات اور برادرانہ تعلقات نے دىن کى تروىج کو پس پشت ڈال دىا اب وہى ہوتا ہے جو اہل رسم اور برادرى کے حضرات چاہتے ہىں۔ ہمارے کسى کام مىں اﷲاور رسول کى رضا حاصل ہونے کا مطلق خىال نہىں ہوتا۔ اب مىں آپ کو تىن شعر لکھتا ہوں ۔ صورت شعر آپ ان کو پہنا دىں مىں شاعر نہىں ہوں
پھر سے دنىا مىں تفسىر عام ہو جائے کہ ىہ بگڑا ہوا دستور نىک انجام ہوجائے