مىرا بچپن
مىں جب تقرىباً چھ ىا سات سال کا ہوگىا والدہ کا حقِ شرعى ختم ہوگىا تو فوراً اپنے ساتھ لے گئے۔ مىں اس وقت چھوٹا بچہ تھا۔ والد صاحب لالہ موسى مىں سرکارى ڈىوٹى پر تھے، رہائش ٹرىننگ سنٹر مىں تھى اس لئے بڑى بہن آپا سمىعاً کو ان کے گھر سے بلاىا اور کافى عرصہ اپنے پاس مىرى وجہ سے رکھا۔پھر بعد مىں خانىوال بھائى محمد ہاشم کى زىر نگرانى رہا۔ بعد مىں مىرے چچا محمد جمىل جن کو والد صاحب نے محکمہ ولىج اىڈ مىں ملازمت دلوائى تھى وہ ملکہ ہانس لے گئے۔ وہاں مىں نے تىسرى اور چوتھى جماعت پڑھى ابھى مىں چوتھى جماعت مىں تھا والد صاحب تشرىف لے آئے اور چچا صاحب سے کہا مىں اس کو دىن پڑھنا چاہتا ہوں اور کل اس کو اپنے ساتھ واپس لے جاؤں گا ملکہ ہانس سے پاکپتن صرف 15 مىل دور تھا۔حضرت والد صاحب بابا فرىد رحمۃ اﷲعلىہ کے مزار پر حاضرى دىنے کے لئے پاکپتن گئے اور احقر کو بھى ساتھ لىا۔ جب ہم سڑک پر پہنچے تو فرماىا تمہارے بال انگرىزى ہىں ان کو کٹواؤ۔ مىں نے کہا مىں ان کو کٹوانا نہىں چاہتا۔ ابا جى نے فرماىا بابا فرىد صاحب کے پاس جا رہے ہو اور بال انگرىزى بابا صاحب کىا کہىں گے۔ مىں نے فوراً سر جھکا دىا۔
ہم مزار پر گئے ، والد صاحب کافى دىر مراقبہ مىں حضرت بابا صاحب کے سر مبارک کى جانب بىٹھے رہے، پتہ نہىں کىا کىا احقر کے دل مىں ىہ خىال آىا مىں مولوى ضرور بنوں گا۔ پھر وہاں سے اٹھ کر حضرت صابر کلىر شرىف والے