سفر لاہور بغرض آپرىشن آنکھ اور والد صاحب کى اىک کرامت
حضرت والد صاحب کى آنکھ مىں موتىا آگىا تھا اس لئے جب لاہور تشرىف لاتے تو ڈاکٹر نعىم اﷲ صاحب کو ضرور دکھاتے۔ آخر انہوں نے آپرىشن کا مشورہ دىا جو والد صاحب نے بخوشى منظور کر لىا۔ اور ہفتہ عشرہ کے بعد لاہور تشرىف لے آئے، کاہنہ مىں قىام رہا۔ احقر گجرات سے لاہور آگىا والد صاحب کو لے کر گنگا رام ہسپتال مىں ڈاکٹر صاحب کے پاس آىا۔ وہ اباجى کو لے کر شادمان مىں ان کے استاد ڈاکٹر جلىل الدولہ کے پاس آئے۔ وہ اس وقت پاکستان کے بڑئے آئى سرجن تھے اور ان کى سرکارى ڈىوٹى حضرت على ہجوىرىؒ ہسپتال مىں تھى۔ مىوہسپتال کے کالج مىں پروفىسر بھى تھے۔انہوں نے اىک چٹ پر داخلہ کا حکم دے دىا اور کہا آپ على ہجوىرى ہسپتال کل چلے جانا۔ وہ اور ڈاکٹر نعىم اﷲصاحب آپس مىں باتىں کرتے رہے اور باتىں والد صاحب کے آپرىشن کے متعلق ہى تھىں۔ اس زمانہ مىں آنکھ کا آپرىشن اتنا آسان نہ تھا جتنا آج کل ہے۔ صرف اىک ٹانکہ آتا تھا جو آنکھ پر لگاىا جاتا تھا۔ اس کى وجہ سے مرىض کى حرکت سے آنکھ پر اثر نہىں پڑتا تھا۔ اور وہ خود مرىض کو بازار سے خرىد کر لا کر دىنا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر نعىم اﷲصاحب نے چٹ دى اس پر اس ٹانکہ کا لکھا ہوا تھا اور فرماىا مىں پہنچا دوں گا ورنہ آپ بازار سے لے آنا۔ والد صاحب کو