بچھراىونىؒ نے قائم کراىااور حضرت تھانوىؒ نے بىعت بھى فرماىا تھا۔ حج کے موقع پر والد صاحب سے کسى صاحب نے کوئى بات پوچھى تھى۔ اس کو جو جواب دىا وہ جواب حضرت بچھراىونىؒ نے حضرت تھانوىؒ کے سامنے نقل کىا۔ حضرت تھانوىؒ نے اس کو سُن کر فرماىا: ڈاکٹر عبد المجىد نے شىخ طرىقت والا جواب دىا۔
حضرت تھانوىؒ کى زندگى مىں ہى حضرت تھانوىؒ کو اطلاع دے کر اور حضرت کى اجازت سے حضرت بچھراىونىؒ نے والد صاحب کو خلافت سے نوازا۔ مولانا عبد المجىد صاحبؒ کو جو تعلق حضرت والد صاحب کے ساتھ تھا وہ اىک خط کے جواب سے معلوم ہوسکتا ہے۔
خط جو والد صاحب نے تحرىر فرماىا
مىں اپنے آپ مىں اور مىاں رشىد مىں فرق نہىں سمجھتا۔ بلکہ مىاں رشىد آپ کے بىٹے اور مىں غلام ہوں۔ بىٹا کہىں چلا بھى جائے تو اسے اختىار ہے لىکن غلام کو آقا سے بھاگ جانا بھى زىبا نہىں ۔
جواب حضرت بچھراىونىؒ
عرض کرنے کى بات تو نہ تھى ، اب عرض کرنى پڑى۔ واﷲ! مىں آپ کو رشىد سے زىادہ سمجھتا ہوں، رشىد کو آپ سے کىا نسبت، آپ مىرى روحانى اولاد ہىں اور مىرے لئے آخرت کا ذخىرہ ہىں، مىرے طرىق کے حامل ہىں۔
احقر نے حضرت والد صاحب قدس سرہٗ کا حضرت تھانوىؒ کے خلفاء کے