کىونکہ مىں نے تو ان حضرت کو ممبر پر بىٹھے ہوئے دىکھا ہے اور آج ىہ حضرات حوض پر بىٹھ کر وعظ سن رہے ہىں۔ حضرت کا وعظ پورى توجہ سے سنا ۔ وعظ کے بعد لوگوں نے مصافحہ شروع کىا۔ حضرت کرسى پر آنکھىں بند کر کے دونوں طرف ہاتھ لٹکا کر بىٹھ گئے۔ لوگ دونوں طرف سے مصافحہ کر رہے تھے۔ مىرے دل مىں ىہ خىال آىا کہ ىہ عجىب طرىقہ کا مصافحہ ہے۔ مولانا کو معلوم بھى نہىں کون ہاتھ لگا رہا ہے۔ مجھے خوب ىاد ہے کہ حضرت کا داىاں ہاتھ مىرے ہاتھ مىں آىا اور مىں نے حضرت کى طرف دىکھا۔ مىرا دىکھنا تھا کہ حضرت نے بڑے زور سے مجھ پر نظر ڈالى۔ مىں ڈر گىا، اس وقت تو معلوم نہ تھا اب سمجھ مىں آتا ہے، بقول مجذوب ؎
جس کو ذرا تکا نہىں کب وہ وہىں گرا نہىں
تىرى نظر کا تىر بھى جس پہ پڑا بچا نہىں
بس اس وقت سے حضرت کى محبت وعظمت دل مىں بىٹھ گئى۔ دوسرے دن مسجد شاہ گل مىں وعظ ہونا تھا۔ مىں اس مىں بھى شرىک ہوا۔
تھانہ بھون کى پہلى حاضرى
مىرى ملازمت 1929ء مىں شروع ہوئى۔ پہلى تقررى انبالہ مىں ہوئى۔ فوراً مىرا تبادلہ گوڑ گاؤں مىں ہوا۔ مىں انبالہ سے سہارن پور اسٹىشن سے اُتر کر چھوٹى لائن سے گاڑى پر سوار ہو کر تھانہ بھون پہنچا۔ جمعہ کا دن تھا۔ دن کے گىارہ بجے تھے۔ ىہ تھانہ بھون کى پہلى حاضرى تھى۔ حضرت والاؒ گھر پر کھانا