مىں ہم نے عشاء کى نماز پڑھى مسجد مکمل طور پر بھر چکى تھى۔ ىہ مىرا اعزاز نہىں بلکہ مىرے والد صاحب کى نسبت کا اعزاز تھا۔
احقر عبد الدىن سلىمى بن حاجى عبد المجىد عرض کرتا ہے کہ تمام خلفاء کے تفصىلى حالات احقر نے طوالت کے خوف سے نہىں لکھے۔ نمونہ کے طور پر چند اہم حضرات کا تفصىلى تعارف لکھ دىا۔
صفائى معاملات، ادائىگى قرض اور حقوق العباد
ان چىزوں کى والد صاحب کو بہت ہى فکر رہتى تھى اس لئے والد صاھب کبھى مقروض نہىں ہوئے۔ اور اگر کسى وجہ سے قرض ہوجاتا تو جب تک ادا نہ ہوتا بے چىن رہتے ، اس کى وصىت لکھتے، ادا ہونے کے بعد لکھ دىتے ىہ قرض اب ادا ہوگىا اس لئے ىہ وصىت ختم ہے۔
ىہاں پر مىں ىہ بھى لکھ دو ں کہ اگر والد صاحب نے کسى دوسرے سے قرض لىنا ہوتا تو اس کے ساتھ نہاىت نرمى کا معاملہ فرماتے ۔ محمد طفىل کى مثال سب کے سامنے ہے جس نے والد صاحب کى رىٹائرمنٹ کے وقت جو رقم ملى تھى وہ اس وقت کے لحاظ سے بڑى رقم تھى لے لى۔ والد صاحب کے نام پر المجىد مىڈىکل سٹور قائم کىا لىکن سارى رقم ہضم کر گىا۔ کئى دفعہ وعدہ کىا، ماہانہ قسط مقرر کى لىکن کبھى وعدہ پورا نہ کىا۔ پھر آخر ملتان مىں جنرل شمىم کورکمانڈر تھے ىہ مولانا نجم الحسن تھانوى ؒ کے ہم زلف تھے۔ مولانا نے ان سے کہا انہوں نے فوجى سپاہى بھىج کر اس کو بلاىا ۔ والد صاحب بھى وہاں موجود تھے ۔ جنرل صاحب